سوال (1321)

“حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يُصَلُّونَ لَكُمْ ، فَإِنْ أَصَابُوا فَلَكُمْ ، وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ”. [صحيح البخاري: 694]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں ۔ پس اگر امام نے ٹھیک نماز پڑھائی تو اس کا ثواب تمہیں ملے گا اور اگر غلطی کی تو بھی ( تمہاری نماز کا ) ثواب تم کو ملے گا اور غلطی کا وبال ان پر رہے گا ۔
اس روایت کے مطابق کیا بریلوی ، دیوبندی وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے؟

جواب

اس روایت میں جو اشارہ ہے ، وہ اس اعتبار سے ہے کہ جب لوگ نماز میں جزوی طور پہ کچھ خرابیاں پیدا کردیں ، مثلاً آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں کہ تکبیرات میں کمی کا آجانا ، اعتدال و اطمینان میں سے کچھ کوتاہی کا شکار ہوجانا ، اوقات کے لحاظ سے نماز کو آخری وقت میں لے جانا ، اس طرح کی چیزیں مراد ہیں ، ورنہ عقیدے کی درستگی اور سنت کا احیاء دو بنیادی چیزیں ہیں کہ عقیدہ سلامت ہو اور سنت پر عمل ہو ، ان دو بنیادی چیزوں کو سامنے رکھنا چاہیے ، اس پر سب کا اتفاق ہے ، قصداً و ارادتاً عقیدے کی کوئی شخص عقیدے کی بگاڑ میں مبتلا ہو ، یا سنت کی ترک میں مبتلا ہو ، تو پھر اس کو اپنی نماز کی خیر منوانی چاہیے ، چہ جائیکہ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں ، اس طرح کی احادیث کی کچھ پس منظر بھی ہے کہ کس تناظر میں ہیں ، جس طرح پیچھے بات بتائی گئی تھی ، اس کو سامنے رکھنا چاہیے ، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے ، ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ چلنا یہ بڑے مقاصد اور اجتماعی معاملات کے ساتھ بتایا گیا تھا ، جیسے عیدین کی اجتماع ہے ، یا ملکی سطح پر کوئی مہم درپیش ہے ، لیڈر جو ہے قیادت تو کرتا ہے ، لیکن اس درجے کا نہیں ہے ، جس درجے کا ہونا چاہیے ، تو اس کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنا مناسب نہیں ہے ، اس طرح کی روایات کا یہ بھی ایک پہلو ہے ، اس پر غور و فکر کرنا چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

نماز کی صحت کے لیے امام کا صحیح العقیدہ ہونا شرط ہے اس پر اجماع ہے ۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

درست یہ ہے کہ تمام اہل سنت کی نمازیں ایک دوسرے کی اقتدا میں صحیح ہیں ، بہتر ہے کہ اس سلسلے میں سخت فتوے جاری نہ کیے جائیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

سائل: شیخ محترم آپ اہل سنت سے مراد کیا لے رہے ہیں ۔
جواب :
اہل سنت وہ سب لوگ ہیں جو حضرت ابو بکر صدیق کو خلیفہ اول مانتے ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

سائل :
اس میں تو بہت عموم ہے ، پھر تو شیعہ کو نکال کر سارے ہی آگئے ہیں ؟
جواب :
جی بالکل عمومی تعریف یہی ہے اہل سنت کی
اس تقسیم کی بنیاد بھی یہی تھی ۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

سخت فتوے کیا ہیں یہ تو ہر انسان کی ہمارے نزدیک تو فقہی مسائل میں برصغیر کے اہل حدیثوں کا جو رویہ ہے وہ سخت ہے مثلاً اگر کوئی کہہ دے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایات کمزور ہیں لہذا اس میں وسعت ہے زیر ناف بھی ہاتھ باندھے جا سکتے ہیں تو ہم اس پر چڑھ دوڑتے ہیں اور اسے اہل حدیثیت سے بھی خارج کر دیتے ہیں واللہ المستعان
جبکہ کسی کافر اور مشرک کے پیچھے نماز نہیں ہوتی اس بارے میں تو سلف کے اقوال سے کتابیں بھری پڑی ہیں السنة لعبد الله بن الامام احمد ابن حنبل ، السنة لابي بكر الخلال، افعال خلق العباد للبخاري وغيرهم

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

اس حدیث سے غیر صحیح العقیدہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کا جواز نکالنا درست نہیں، کیونکہ اس حدیث کا تعلق حکمرانوں کے ساتھ ہے، عام أئمہ مساجد کے ساتھ نہیں ، مزید تفصیل کے لیے شیخ زبیر علی زئی رحمہ کی کتاب “بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم” کا مطالعہ کیجیے.

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ روافض کے پیچھے یا ان جیسے عقائد رکھنے والوں کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے ، امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ میں جہمی یا رافضی کے پیچھے نماز پڑھو برابر ہے کسی یہودی یا نصرانی کے پیچھے پڑھوں۔(خلق افعال العباد)

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ