سوال (1104)

کیا مرد محض عورت یا عورتوں کو جماعت کروا سکتا ہے؟

جواب

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قیام رمضان کے لیے ایک امام مردوں کے لیے اور ایک عورتوں کے لیے مقرر فرمایا تھا ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

مصنف ابن ابي شيبة و عبدالرزاق ، قیام اللیل للمروزی فيه ارسال
جی ہاں ! جماعت کروا سکتا ہے عورت ہو یا عورتیں ہوں ، بس فتنے کا موجب نہ بنے ، اس چیز کا خیال رکھنا ہے ، مقصد کے تحت اس طرح نہ ہو رہا ہو ، بس اس چیز کو دیکھ لیا جائے ، باقی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سیدنا رسول اللہ خواتین کو خطبہ دینے کے لئے گئے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔آدمی اپنے دین کے متعلق خوف زدہ رہے اور کھبی بھی اپنے کو مامون نہ سمجھے۔ آپ کے سوال کی صورت امر واقع میں یوں ممکن ہے کہ ایک حافظ کسی جگہ خواتین ہی کو تراویح پڑھائے ، ایسی جگہوں پر فتنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے خصوصاً جب امام خوبصورت اچھی آواز والا اور نوجوان ہو ۔

” مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ “[صحيح البخاري]

اپنے بعد مردوں کے لئے خواتین سے بڑھ کر کوئی فتنہ مردوں کے لئے نقصان دہ نہیں پاتا۔
صرف خواتین کو امامت کروانے سے کئی مقاصد فوت ہو جاتے ہیں مثلاً : احیانا امام کو لقمہ چاہیے ہوتا ہے ، لیکن عورت کے لئے تصفیق ہے وہ بول کر لقمہ نہیں دے سکتی وغیرہ ۔ سيدنا علی نے بھی ایسے ہی مقرر کیا تھا «خواتین کے لئے تراویح کی نماز کے لئے» مصنف عبد الرزاق وغیرہ وفیه ضعف
بعد کے سلف سے جواز اور کراہت دونوں کے اقوال ہیں ۔
کراہت والے کہتے ہیں کہ اگر حدث پیش آیا تو کون آگے ہو گا؟
واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

بہر حال تراویح میں تو علماء نے اجازت دی ہے کہ کوئی اور لقمہ دینے والا نہیں ہے تو خواتین لقمہ دے سکتی ہیں، کیونکہ یہ کلام الناس نہیں ہے ، قلن قولا معروفا کے مطابق ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ