سوال (434)

کیا مسجد میں آتے جاتے اجتماعی سلام کرنا درست ہے، بالخصوص جب باجماعت نماز ادا کی جا رہی ہو ؟ کسی اہل علم سے سنا تھا کہ اجتماعی سلام کی بجائے مسجد میں داخل ہو کر اپنے قریب ترین افراد کو سلام کر دیں ؟

جواب

مسجد میں داخل ہوتے وقت عمومی سلام کہنا صحیح مسلم کی مقداد رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے لیکن اس میں وضاحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے سلام کہتے کہ سویا ہوا جاگتا نہیں اور بیدار افراد سن لیتے تھے ، یعنی آہستہ آواز سے سلام کہا کرتے تھے۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

“كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَيَرُدُّ عَلَيْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ، سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فِي الصَّلَاةِ فَتَرُدُّ عَلَيْنَا، فَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلَاةِ شُغْلًا” [صحیح مسلم: 538]

’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ہوتے تھے سلام کہا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سلام کا جواب دیتے تھے جب ہم نجاشی کے ہاں سے واپس آئے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز میں) سلام کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جواب نہ دیا۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا کرتے تھے اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جواب دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: نماز میں (اس کی اپنی) مشغولیت ہوتی ہے‘‘۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :

“قُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ؟ قَالَ: كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ” [سنن الترمذی: 369]

’’میں نے حضرت بلال رضی اﷲ عنہ سے پوچھا کہ لوگ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی حالت میں سلام کہتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جوا ب کس طرح دیتے تھے؟تو آپ رضی اﷲعنہ نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے‘‘۔
سلام کا جواب آہستہ دینا چاہیے جیسا کہ شیخ نے اوپر جواب دیا ہے ، اور دوسرا یہ ہے کہ کسی بھی مجلس میں آپ جائیں یا واپس آنے لگیں تو سلام کرنا چاہیے ۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ آخری والا سلام پہلے والے سلام سے افضل نہیں ہے ، جب بندہ جانے لگے تب بھی سلام کر سکتا ہے ، لیکن اس کو اپنی نماز کے درمیان خشوع و خضوع ضائع ہونے سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے ۔ جو لوگ کہتے ہیں یہ ان کی بات درست نہیں ہے ، یعنی سلام کا جواب نماز میں بھی دے سکتے ہیں اور سلام پھیرنے کے بعد بھی دے سکتے ہیں ، دونوں طرح ثابت ہے

فضیلۃ العالم عمر اثری حفظہ اللہ