سوال (1099)

ایک بندے نے ٹوٹل بارہ لاکھ ساٹھ ہزار دوسرے بندے سے قرض لیا ہے ، کیا اس پر زکاۃ ہے؟

جواب

جس نے قرض لیا ہے وہ زکاۃ نہیں دے گا ، زکاۃ وہ دے گا جس کا پیسہ ہے ، یا اس کو ملنے کی امید ہے ، یہ اگر دے گا تو یہ سود کے زمرے میں چلا جائے گا ، جی آپ نے پیسہ لیا ہے ، آپ میری زکاۃ دو ، پیسا جس کا ہے ، زکاۃ وہ دے گا ، اس نے تو قرض لیا ہوا ہے ۔
اشکال :
اب یہ اشکال اٹھایا جاتا ہے کہ قرض دینے والے کی ملکیت میں وہ رقم موجود نہیں ہے تو یہ زکاۃ کیسے دے گا ؟
ازالہ :
جی ہاں بعض علماء کا خیال ہے کہ وہ مالک نہیں ہے ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پھر اس کا مالک کون ہے ؟ ملکیت میں نہیں ہے کیا وہ پیسہ دوسرے کا ہوگیا ہے ، یہ ایک غیر ضروری تاویل ہے ، جیسے ہم کمیٹی ڈالتے ہیں یا پلاٹ بک کرواتے ہیں وہ ہمارا ہی پیسہ ہوتا ہے ، بینک میں رکھا ہوتا ہے وہ ہمارے ملکیت میں نہیں ہے بینک کی ملکیت میں ہے ، تو یہ تاویلات ہیں جن کی ہمارے ہاں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ