سوال           (123)

ایک شوہر نے بیوی کے سامنے طلاق کی بات نہیں کی، لیکن لوگوں سے کہتا پھرتا ہوکہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے، بیوی کو ذہنی طور پر ٹارچر کر رہا ہے لیکن آج تک اس کے منہ پر کچھ نہیں کہا ہے۔ تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟

جواب

اس میں تین باتیں ہیں:

1: طلاق کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ بیوی کے سامنے ہی دی جائے، یا اسے مطلع کیا جائے تو پھر ہی طلاق واقع ہوگی. بلکہ اگر خاوند بیوی کی عدم موجودگی میں طلاق دیے دیتا ہے تو یہ طلاق واقع ہو جائے گی، البتہ چونکہ بیوی کو طلاق کا علم ہونا ضروری ہے، کیونکہ طلاق سے پہلے اور بعد کے شرعی احکام میں فرق پڑتا ہے، لہذا یہ شخص بیوی کو نہ بتانے پر گناہ گار ہوگا، اور اگر قاضی کے پاس مسئلہ جائے تو یہ اس کو سزا بھی دے سکتا ہے۔

2: طلاق واقع ہونے کے حوالے سے یہ بھی تفصیل ہے کہ انسان صریح لفظ بول کر طلاق دے دے یا اگر غیر صریح لفظ بولے، لیکن اس کی طلاق کی نیت ہو۔ ایسی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر اس نے صریح یا غیر صریح کسی بھی لفظ سے طلاق نہیں دی، لیکن لوگوں کے سامنے جھوٹ بولتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے، تو ظاہر ہے اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یعنی اگر وہ کہے کہ میں بیوی کو طلاق دیتا ہوں، تو پھر طلاق ہو جائے گی، لیکن اگر کہے کہ میں نے تو کل یا فلاں تاریخ کو بیوی کو طلاق دے دی تھی، اور اس نے دی نہ ہو، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ البتہ یہ شخص جھوٹا تصور ہوگا۔

جیسا کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔ جبکہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے جو فرمایا ہے:

“إن قال: طلقتها، وأراد الكذب، طَلُقَتْ; لأن لفظ الطلاق صريح , يقع به الطلاق من غير نية”.

یہ بھی اس سے مختلف بات نہیں، واللہ اعلم کیونکہ اس کو اس صورت پر محمول کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی اپنی بیوی سے متعلق جھوٹ موٹ میں کہے کہ میں اسے طلاق دیتا ہوں، تو پھر بھی طلاق واقع ہو جائے گی۔ کیونکہ لفظ طلاق صریح ہے، اس کے لیے اس کا طلاق کا ارادہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ جبکہ جو صورت اوپر بیان کی گئی ہے کہ کوئی انشائے طلاق کی بجائے وقوع طلاق کی جھوٹی خبر دے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی. واللہ اعلم۔

ہاں البتہ یہاں بھی چونکہ ایک انتہائی حساس معاملے میں اس نے غلط بیانی کی ہے تو اسے سزا دینی چاہیے، تاکہ لوگ ان شرعی احکام کے ساتھ کھلواڑ نہ کریں۔

3: اگر میاں بیوی کا آپس میں اختلاف ہو جائے ایک کہے کہ طلاق دی ہے، دوسرا کہے نہیں دی، تو اس مسئلے پر بھی اہل علم نے گفتگو فرمائی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میاں بیوی کا اختلاف ہو، تو دونوں کے بیانات کی تحقیق و تصدیق اور موازنہ ضروری ہوتا ہے۔

درج ذیل چیزیں خاوند کے حق میں جاسکتی ہیں:

1: طلاق کا حق اس کے پاس ہے، لہذا اصل یہ ہے کہ اس کی بات معتبر ہوگی۔

2: خاوند حلف اٹھائے کہ اس نے طلاق نہیں دی۔

اسی طرح درج ذیل امور ہیں، جن سے بیوی کی بات کو ترجیح حاصل ہوسکتی ہے:

1: دو گواہوں کی موجودگی۔

2:ایک گواہ کی موجودگی اور ساتھ بیوی کا قسم اٹھانا

بیوی کے حق میں ایک گواہ اور ساتھ شوہر کا قسم اٹھانے سے انکار کرنا

لہذا اگر بیوی کے پاس اوپر ذکر کردہ تینوں امور میں سے کوئی بھی نہ ہو، تو خاوند کی بات معتبر ہے، اور اگر خاوند ساتھ قسم بھی اٹھادے، تو اس کی مزید تائید و تصدیق ہوجائے گی۔

لیکن اگر بیوی دو گواہ پیش کردے، یا پھر حلف اٹھائے یا خاوند حلف اٹھانے سے انکار کرے، تو ایسی صورت میں ایک گواہ پیش کردینا بھی کافی ہے، اور اگر گواہی، بیوی کا حلف اور خاوند کا حلف سے انکار تینوں چیزیں اکٹھی ہوجائیں، تو پھر وقوع طلاق کا فیصلہ مزید واضح اور پختہ ہوجائے گا۔ [یکھیں: اعلام الموقعین 1/209۔211]

اورا گر معاملہ کسی صورت حل کی طرف نہ آرہا ہو، تو عورت خلع کے ذریعہ اپنے آپ کو محفوظ کرسکتی ہے۔

اسی طرح دلائل اور عدالت کی رو سے فیصلہ مرد کے حق میں جارہا ہو، لیکن عورت کو وقوعِ طلاق پر اطمینان ہو، تو پھر بھی اسے خلع لے کر علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ