میں نے ایک تحریر لکھی تھی کہ اردو میں کن لوگوں کو پڑھنا چاہیے ، تحریر کا مقصد اردو کے مختلف اسالیب سے واقفیت کے ساتھ ایک خاص قسم کے ادبی ذوق کی ترقی تھی ، تحریر پسند کی گئی لیکن بعض احباب نے یہ بات بھی رکھی کہ جنہیں پڑھا جاتا ہے ان کا اثر بھی قبول کیاجاتا ہے اس لیے مختلف مصنفین کے رجحانات اور فکری انحرافات پر بھی روشنی ڈالی جانی چاہیے ۔بات معقول تھی ، اس لیے یہ مناسب لگا کہ اس سلسلے میں چند وضاحتیں پیش کردی جائیں ۔لیکن اس سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اہل نظر جب کسی کو پڑھتے ہیں تو وہ بیدار عقل اور بصیرت افروز نگاہ کے ساتھ پڑھتے ہیں ، وہ خوبی و خامی پر نظر رکھتے ہیں اور انہیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کیا لینا ہے اور کیا رد کردینا ہے ۔ اس سلسلے میں اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک مسلمان کے پاس عظیم ترین نعمت یعنی قرآن وسنت موجود ہیں ، وہ تمام افکار وخیالات کو ان پر پیش کرکے دیکھ سکتے ہيں اور جان سکتے ہیں کہ کیا خوب ہے اور کیا ناخوب ہے ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس طرف آکر حق سے آگاہ کرنے کی بجائے باطل سے ہوشیار کرنے کا رویہ زیادہ دیکھنے کو مل رہا ہے ، جب کہ تلقین حق کا کام زیادہ ہونا چاہیے اور تردید باطل کا کام حسب ضرورت ۔ توازن کی یہ کمی گھاتک ہوسکتی ہے ۔
کسی بھی زبان کے ادیبوں اور شاعروں کا بالعموم رویہ انسانی اور آفاقی ہوتا ہے ۔ وہ عام انسانی جذبات و احساسات کو پروان چڑھانے کا کام کرتے ہیں لیکن ان میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس غرض کے لیے دین ، دینی پیشوا اور دینی اقدار کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ اس میں بھی دو کیفیت ہوتی ہے ، ایک کا تعلق دینی پیشواؤں کے یہاں موجود تضاد اور فکر وعمل کے نفاق پر چوٹ کرنا ہوتا ہے اور دوسرے کا تعلق بالکلیہ دین اور رجال دین کو یکسر مسترد کرنے سے ہوتا ہے ۔ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ ان کی اکثریت دین سے کما حقہ واقف نہیں ہوتی ، اس لیے زيادہ تر مواقع سے وہ اپنی نادانی اور عدم واقفیت کے سبب دین کے احکام و مسائل کو انسانیت دشمن سمجھ لیتے ہیں اور رد وقدح کا رویہ اپنانے میں دیر نہیں کرتے ۔آپ کو یہ کیفیت دیکھنی ہو تو آپ اردو میں غالب اور جوش وغیرہ کے یہاں بہ آسانی تمام دیکھ سکتے ہیں ۔
اردو نثر کے معماروں میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسلامی لٹریچر میں بھی اپنا مقام رکھتے ہیں جیسےسرسید احمد خاں ، شبلی نعمانی ، ابوالکلام آزاد اور ابوالاعلی مودودی وغیرہ ۔ ان جیسے مصنفین کو پرکھنا نسبتا زيادہ آسان ہے کہ وہ دینی موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں ، آپ براہ راست انہیں قرآن و سنت کے نصوص پر رکھ کر تول سکتے ہیں ۔ چنانچہ سر سید کو پڑھیے تو یاد رکھیے کہ وہ انگریزوں کے حسن وعقل دونوں پر فریفتہ تھے ، مسلمانوں کی فلاح اس میں دیکھتے تھے کہ وہ بھی انگریزوں کی مانند ” مہذب ” ہوجائیں ۔ اس لیے جہاں کہیں مسلمانوں کا کوئی طرز عمل انگریز قوم کے طرز کے عمل کے مطابق نہیں پاتے یا کوئی عقیدہ و فکر ان کے عقیدہ و فکر کے معیار پر نہیں دیکھتے ،جھٹ مسلمانوں کی اصلاح کی آواز بلند کرتے ہیں اور عقید ہ و فکر کی تاویل کرکے انگریزی معیار کے مطابق دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں ان کا یہ جذبہ خدمت پورے دین و ایمان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتا ہے ۔
شبلی کو پڑھتے ہوئے یاد رکھیے کہ ان پر علم کلام کا اثر ہے ، طرز محدثین سے وہ کما حقہ واقف نہيں ہیں ، اس لیے درایت کا وہ مفہوم روا رکھتے ہیں جو محدثین کے مطابق نہيں ۔البتہ ان کے یہاں سیکھنے اور حاصل کرنے کا جذبہ بہت شدید رہا ہے ، اس لیے بہ تدریج وہ زندگی کے آخری دور میں محدثین کے طرز عمل کی طرف بڑھنے لگے ہیں ، لیکن بہرحال یہ رجحان ان کی نمایاں تحریروں میں ظاہر نہیں ہوا ہے ۔شبلی کی ادبی اور تاریخی تحریروں کو جتنا پڑھیے ، دل و دماغ اتنا روشن ہوں گے ۔ اس معاملے میں شبلی پر رشک کیا جاسکتا ہے۔
ابوالکلام آزاد کا چھوڑا ہوا سرمایہ نسبتا کم ہے ۔ مولانا سے متعلق بھی یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہ آزادانہ مطالعہ اور کھلے ذہن سےوہاں تک پہنچے تھے جہاں تک پہنچے تھے ، اس لیے کہیں کہیں اس آزادانہ روش کا اثر ان کی تحریروں میں بھی چھلک جاتا ہے ۔ہمیں یہاں بھی قرآن وسنت کو ہی معیار بناکر پرکھنے کا کام کرناچاہیے ۔
مودودی صاحب کے یہاں ایک خاص طرز فکر کی کارفرمائی ہے ۔ وہ اسلامی حکومت کے قیام کو اسلامی زندگی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں اور پھر اسی پر بقیہ تمام احکام اسلام کی بنا رکھتے ہیں ۔ یعنی وہ یہ سمجھتےہیں کہ اقامت دین کا مطلب اس پورے نظام کو کھڑا کرنا ہے ورنہ پورے دین پر عمل نہیں ہوسکے گا۔ ان کےاس طرز فکر ونظر کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ نماز ،روزہ ، حج اورزکوۃ جیسی بنیادی عبادتوں اور ارکان اسلام کو بھی اس عظیم مقصد یعنی حکومت الہیہ کے قیام کا وسیلہ سمجھتے ہیں ، اتنا ہی نہیں بلکہ جب وہ اپنے مخصوص طرز فکرونظر کے مطابق مقدس شخصیات کو نہیں پاتے یا تاریخ کو اس سے متصادم پاتے ہیں تو جسارت سے باز نہيں آتے اور تنقید کربیٹھتے ہیں ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر ان کی ناروا جسارت اور خلفائے راشدین کے بعد کی پوری اسلامی تاریخ کو طاغوت سے تعبیر کرنے کے پیچھے مجھے ذاتی طور پر یہی سبب نظر آتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ وہ احادیث کی پرکھ کے سلسلے میں بھی طرز محدثین سےالگ راہ اپناتے ہیں اور عجیب وغریب تضاداور کنفیوژن کے شکار ہوکر رہ جاتے ہیں ۔
ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیبوں اور شاعروں میں دو طرح کے لوگ ہیں ۔ ایک وہ جو سرے سےدین کےخلاف ہیں اور دینی افکارو نظریات کو ہر طرح کی خرابی کی جڑ سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں ۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ مذہب بھی در اصل سماج کا ہی زائيدہ ہے ۔ مارکس کو اپنا گرو سمجھنے والے زیادہ تر ادیبوں اور شاعروں کا یہی رویہ ہے ۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے تہذیبی سطح پر خود کو مسلم دیکھتے ہیں لیکن سماج اور مسائل حیات کو دیکھنے کا طریقہ ان کا بالکل وہی اشتراکی ہوتا ہے ۔ پہلے کی مثال میں آپ انگارے کے مصنفین ، معین احسن جذبی اور جاوید اختر جیسے لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں اور دوسرے کی مثال میں آپ چاہیں تو احمد ندیم قاسمی جیسےلوگوں کو دیکھ سکتے ہيں ۔یہ بنیاد ذہن میں رہنے کے ساتھ یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ وہ انسانوں کی برابری کے قائل ہیں ، نہ دولت کی بنیاد پر، نہ ملت و مذہب کی بنیاد پر اور نہ جنس کی بنیاد پر وہ کسی قسم کی تفریق کو درست سمجھتے ہیں ، اس لیے ان کے یہاں آزادی کا شور بہت سنائی پڑتا ہے ۔ آپ اس زاویے سےدیکھیں گے تو منٹو ، عصمت ، کرشن چندر، پریم چنداور بقیہ لوگوں کا معاملہ آپ کی سمجھ میں آجائے گا۔
ان کے بعد جن لوگوں نے ادب کو سماج کی بجائے ذات سے جوڑنے کی کوشش کی اور واقعیت پسندی کی وکالت کی ، ان کے یہاں ابہام و علامت کی بہتات کے ساتھ ہی جنسی بے راہ روی اور اخلاقی پابندیوں سے بیزاری کی کیفیت واضح ہے ۔ یہ لوگ خود میں ایسے غائب نظر آتے ہیں کہ نہ خود کے ہوپاتے ہیں اور نہ سماج کے ۔ میراجی کے یہاں اس کی عبرت انگيز مثال دیکھنے کو ملتی ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی کے شب خون سے وابستہ ادیبوں اور شاعروں کے یہاں بھی یہ کیفیت واضح ہے ۔
اس کے بعد جو نسل ادب کےافق پر نمودار ہوئی اس کے یہاں ہر طرح کے رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں ، ادبی حلقوں میں اسے 1980 کے بعد کی نسل سےتعبیر کیا جاتا ہے لیکن آپ اگر پہلے بیان کیے گئے اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہیں تو انہیں بھی بہ آسانی پرکھ سکتے ہیں ۔مختلف نظریات و افکار کے اثرات ان کے ادب پر جلوہ گر ہیں اور تھوڑی سی غور کی نگاہ بتا دیتی ہے کہ یہ پانی کس چشمے سے بہہ کر آيا ہے ۔
چلتے چلتے یہ وضاحت ضروری ہے کہ بالعموم ادیبوں اورشاعروں کارحجان انسانی ہوتا ہے ، وہ انسان کی کمزوریوں کو اس کی اس خصوصیت کےطور پر دیکھتے ہیں جنہیں خوشی سے قبول کرنا چاہیے ، ان کی تقدیس بھی ہوجائے تو چلےگا ۔ آپ منٹو ، عصمت اورندا فاضلی وغیرہ کے یہاں یہ کیفیت بہت دیکھیں گے ، وہ طوائف ، چور اچکوں اور نیچ حرکت کرنے والوں کو آپ کے سامنے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ آپ کو ان افراد سے ہمدردی تو ہوہی جاتی ہے ، ان برائیوں سے آپ کی نفرت بھی ویسی نہیں رہ پاتی ۔ غور کیجیے تو یہ کتنی خطرناک بات ہے !!!
یوں زبان و بیان پر گرفت اور اسالیب بیان سے واقفیت کے ساتھ ان میں مہارت پیدا کرنے کے لیے ان ادباء شعراء کو پڑھنا چاہیے لیکن فکر ونظر کے تعلق سے اپنی نگاہیں ہمیشہ کھلی رکھنی چاہیے ۔
ثناءاللہ صادق تیمی