سوال (3129)

سو روپے پر کتنا منافع ہونا چاہیے؟ کیا منافع کی حدود متعین ہیں؟

جواب

اسلام نے منافع کا تعین نہیں کیا ہے، باقی کسی خاص تناظر میں ہو جائے تو الگ بات ہے، شریعت میں حد کا تعین نہیں ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏سَعِّرْ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مَالٍ” [سنن الترمذي : 1314]

“ایک بار رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (غلہ وغیرہ کا) نرخ بڑھ گیا، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے نرخ مقرر کر دیجئیے، آپ نے فرمایا: نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، وہی روزی تنگ کرنے والا، کشادہ کرنے والا اور کھولنے والا اور بہت روزی دینے والا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جان و مال کے سلسلے میں کسی ظلم (کے بدلے) کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو”
اللہ تعالیٰ ہی رزاق، باسط اور قابض ہے، اللہ تعالیٰ ہی بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے، یہاں سے معلوم ہوا ہے کہ منافع کبھی زیادہ اور کبھی کم ہو سکتا ہے، لیکن شریعت کوئی حد متعین نہیں کی ہے۔
عروۃ البارقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“دَفَعَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا لِأَشْتَرِيَ لَهُ شَاةً، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَيْتُ لَهُ شَاتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَبِعْتُ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُ بِالشَّاةِ وَالدِّينَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ لَهُ مَا كَانَ مِنْ أَمْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي صَفْقَةِ يَمِينِكَ ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ يَخْرُجُ بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى كُنَاسَةِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَرْبَحُ الرِّبْحَ الْعَظِيمَ فَكَانَ مِنْ أَكْثَرِ أَهْلِ الْكُوفَةِ مَالًا” [سنن الترمذي : 1258]

“رسول اللہ ﷺ نے بکری خریدنے کے لیے مجھے ایک دینار دیا، تو میں نے اس سے دو بکریاں خریدیں، پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ سے تمام معاملہ بیان کیا اور آپ نے فرمایا: اللہ تمہیں تمہارے ہاتھ کے سودے میں برکت دے، پھر اس کے بعد وہ کوفہ کے کناسہ کی طرف جاتے اور بہت زیادہ منافع کماتے تھے۔ چناچہ وہ کوفہ کے سب سے زیادہ مالدار آدمی بن گئے”
اس سے معلوم ہوا ہے کہ سو فیصد بھی منافع لینا درست ہے، شریعت نےکوئی حد متعین نہیں کی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ