مَنجھی مَنجھائی اور دودھ میں نہائی تیرہ جماعتوں کے اتحاد نے صرف سولہ ماہ میں اپنی کامل ” بصیرت اور فہم و فراست “ کے ساتھ جس طرح ملکی معیشت کا بیڑا غرق کیا، اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔یہ ” دانا و بینا “جن والہانہ جذبات اور آہنی عزائم کے ساتھ میدانِ سیاست میں مقابلہ زن ہُوئے اور پی ٹی آئی کو چاروں شانے چت گرا کر اقتدار حاصل کیا، اُن تمام عزائم میں ان تیرہ پہلوانوں کو اتنی ذلت آمیز شکست ہُوئی کہ برسوں تک جگ ہنسائی ہوتی رہے گی۔

اب تو ہر ایرے غیرے کی زبان سے بھی یہ الفاظ بے ساختہ برآمد ہو رہے ہیں کہ آصف زرداری نے آیندہ الیکشن میں نون لیگ کے بچے کھچے وقار کی دھجیاں بکھیرتے کے لیے جان بوجھ کر نون لیگ کے اپنے ہاتھوں سے ملکی معیشت کو تباہی سے دوچار کیا، صرف سولہ ماہ قبل کے حالات دیکھ لیں! یہ تمام سیاسی ” سپوت “ ڈالر سے کُشتی لڑنے آئے تھے۔

مگر ڈالر کے ساتھ ان کی کُشتی، نورا کُشتی ثابت ہُوئی۔انھوں نے ڈالر کو اتنی مقوی غذائیں کِھلائیں کہ آج ڈالر کے ڈولے دیکھ کر ہی روپے کی سانسیں رکنے اور اکھڑنے لگتی ہیں، ان سیاست دانوں کی اپنی ذاتی معیشت مضبوط ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ڈالر کو خوب ہٹّا کٹّا کیا جائے، کیوں کہ ان کی اپنی دولت دوسرے ممالک کے بنکوں میں ڈالر کی شکل میں موجود ہے، جب ڈالر کی قیمت بڑھتی ہے تو ہلدی لگتی ہے نہ پھٹکڑی، ان کی دولت میں خود بہ خود اضافہ ہو جاتا ہے۔

یہ تیرہ سیاسی ” سورمے “ معاشی بحران کو لگام ڈالنے آئے تھے، مگر معاشی بحران أج اتنا ٹھاڈا اور تگڑا ہو چکا ہے کہ اس نے 23 کروڑ عوام کو رگڑا اور پھینٹی لگا کر رکھ دی ہے، یہ سیاسی ” رستم “ منہگائی کے بد نما دیو اور عفریت کو پچھاڑنے کے لیے بھی صف آرا ہُوئے تھے مگر یہ سب مل کر بھی منہگائی کی کلائی تو کیا انگلی تک نہیں مروڑ سکے۔

ان تیرہ ” سورماؤں “ نے ہاہم مل کر آئی ایم ایف کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے ہی کو سعادت اور نیک بختی خیال کیا، ایک ایٹمی طاقت کے سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کشکول لے کر ملکوں ملکوں پھر کر بھیک مانگنے میں بھی ذرا عار اور ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔اگرچہ ملک کے حالات سولہ ماہ قبل بھی مخدوش ہی تھے مگر آج سولہ ماہ بعد جس طرح مفلوک الحال لوگوں کی چیخیں اور سسکیاں دلوں کو چِیر رہی ہیں ان کی بازگشت برسوں تک سماعتوں کو تڑپاتی ہی رہے گی۔

منہگائی کے حق میں مختلف وقفوں سے شہباز شریف، رانا ثنا ء اللہ اور اسحاق ڈار نے جتنے بھی فلسفے بگھارے، عوام کو ان سے کوئی رائی کے دانے کے برابر تشفی ہوئی نہ عوام کو ان بے سروپا وضاحتوں سے کوئی سروکار تھا، شہباز شریف بڑے ناز سے کہتا رہا کہ ” ہم نے ریاست کے لیے اپنی سیاست کو تباہ کیا “ جملے میں تھوڑی تصحیح کر کے یوں کر لیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ ” ہم نے اقتدار سنبھال کر ریاست کو بھی تباہ کر دیا اور اپنی سیاست کا بھی ناس مار کر رکھ دیا “ یہ حقیقت ہے کہ جب پی ڈی ایم کے ” فاتحین “ نے حکومت سنبھالی تو عمران خان کی مقبولیت کا گراف مسلسل گر رہا تھا اور اس کی وجہ بھی صرف منہگائی ہی تھی، عمران خان نے جو وعدے کیے تھے وہ بھی ایفا نہ ہو سکے تھے۔

یہی وجوہ تھیں کہ ڈیڑھ سال قبل عمران خان سے لوگ نالاں اور عاجز آتے جا رہے تھے، لیکن جوش جذبات میں تیرہ جماعتوں نے اقتدار پر متمکن ہونے کی ایسی فاش غلطی کی، جس کا کچھ نہ کچھ ازالہ اسی صورت میں کرنے کی کوشش کی جائے کہ الیکشن کو موخر کیا جائے، ظاہر ہے نگران حکومت میں بھی اتنے تپّڑ نہیں ہیں کہ منہگائی کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کو جھنجوڑ سکے، سو جتنی تاخیر سے الیکشن ہوں گے منہگائی کا ملبہ آہستہ آہستہ نگران حکومت کے نحیف و ناتواں شانوں پر منتقل ہوتا رہے گا اور نون لیگ اپنے دامن پر لگے بدنما داغ کچھ نہ کچھ دھو سکے گی۔

المیہ یہ ہے کہ آج تک جو سیاسی جماعت بھی اقتدار میں آئی ہے وہ محض بیانیوں، نعروں اور وعدوں کے شور شرابے کے زور پر حکومت کرتی رہی ہے، عوام کے مفاد سے انھیں کَل دل چسپی تھی، نہ آج کوئی سروکار ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حالات بڑے ہی ابتر ہیں، جب تک ان حالات میں سیاست کی بنیاد وفا پر نہیں رکھی جائے گی، حالات کبھی آسودگیوں کی جانب گامزن نہیں ہوں گے۔ عوام کو ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو حقیقت میں صرف عوام کا قائد ہو، جو دگرگوں حالات میں بھی عوام کے ساتھ وفا کرے، جو وحشتوں میں گھرے لوگوں کا ساتھی ہو، جو دہشت زدہ افراد کا ہم درد اور غم گسار ہو، افتخار عارف کے بہ قول:
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

 انگارے۔۔۔حیات عبداللہ