ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے زیادہ تمکنت، سب سے اعلا و ارفع مقام اور سب سے زیادہ تعظیم و تکریم استاذ کو دی جاتی کہ دنیا کے سب مہذب معاشروں میں ایسا ہی کیا جاتا ہے، مگر اکرام و احترام تو کجا آج اساتذہ کی بے توقیری کا کوئی لمحہ رایگان نہیں جانے دیا جاتا۔اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرز سے کر سی ای او ایجوکیشن تک سب اپنا غصّہ اساتذہ پر اتارتے ہیں، محکمہ ء تعلیم میں ہیڈ ٹیچرز اپنے آپ کو آفیسرز سمجھتے ہیں اور یہ بھی اساتذہ کی طعن و تشنیع کا کوئی موقع فروگزاشت نہیں چھوڑتے۔سوائے تدریس کے وہ کون سا کام ہے جو اساتذہ سے نہیں لیا جا رہا۔ڈینگی مہم، شجر کاری کے کارہائے نمایاں، فائلر اور نان فائلر کے گوشوارے، ووٹر لسٹ کی تیاری سمیت درجنوں کام اساتذہ سے لیے جا رہے ہیں، بے شمار ذمہ داریاں ہیں جو اساتذہ کو زبردستی تھوپ دی جاتی ہیں۔استاذ کسی کو ہلکی سی سرزنش کر دے یا کوئی ایک آدھ ڈنڈا مار دے تو میڈیا کو ایک انتہائی اہم خبر مل جاتی ہے اور استاذ کو پیڈا ایکٹ کے قوانین میں الجھانے کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔
اب تو نوبت اتفاقی حادثات تک آ پہنچی ہے کہ انھیں بھی اساتذہ کے کھاتے میں ڈال کر پورا غصہ نکالا جاتا ہے، سوشل میڈیا پر اساتذہ کو رسوا کرنے کی مہم شروع ہو جاتی ہے اور ایسی مہم کو دیکھ کر محکمہ ء تعلیم کے افسران، اساتذہ کو محض اس لیے سزائیں دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہوتی ہے۔
ایسا ایک سانحہ تحصیل لودھراں میں واقع گورنمنٹ ماڈل سکول رام کلی میں گذشتہ ہفتے پیش آیا، ایک طالبِ علم الیکٹریکل کولر سے کرنٹ لگنے کے باعث فوت ہو گیا۔ابھی میڈیکل رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی تھی کہ ہیڈ ٹیچر رضیہ غفور اور کلاس انچارج شگفتہ کو معطل کر دیا گیا، سوشل میڈیا پر ان ٹیچرز کے خلاف پیڈا ایکٹ لگانے کی خبریں نشر ہونے لگیں۔بعض حادثات اتفاقی ہوتے ہیں ان میں کسی کو دوش نہیں دیا جا سکتا، عین اسی لمحے متعدد طلبہ نے اسی کولر سے پانی پیا، فوت ہونے والے بچے کے والد کے بہ قول پہلے اس کے بھتیجے نے خود پانی پیا اور فوت ہونے والے کو بھی پانی پلایا، بچے نے مزید پانی پینے کے لیے خود کولر کو ہاتھ لگایا تو اچانک کرنٹ لگ گیا۔ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر ثمینہ یاسمین کے بہ قول چالیس پچاس سکولوں میں ایسے الیکٹریکل کولر لگے ہوئے، ساتھ ہی سرکٹ بریکر بھی لگے ہوئے ہیں۔ٹھنڈا پانی پینے کے لیے ایسے کولر ناگزیر ہوتے ہیں مگر بعض حادثات میں انسان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔مذکورہ سکول کے طلبہ و طالبات کے والدین بتاتے ہیں کہ تمام اساتذہ ہمارے بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں، بعض اوقات وہ طلبہ کو انعام کے طور پر کچھ پیسے بھی دیتے اور دیتی ہیں۔طلبہ کے ہوم ورک کی کاپی چیک کریں تو باقاعدہ وہاں پر تعریفی جملے بھی لکھے ہوئے ہیں۔
استاذ کوئی بھی ہو اپنے طلبہ سے محبت کرتے ہیں۔کیا کوئی استاذ جان بوجھ کر کسی طالبِ علم کو اس طرح ہلاک کر سکتا ہے؟ اگر نہیں اور یہ ایک اتفاقی حادثہ ہی ہے تو پھر اساتذہ کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے؟ ایک بچہ تو کرنے لگنے سے موت کے منہ میں چلا گیا، آپ اساتذہ کو معطل کر کے ان کے بچوں کو کیوں بھوک سے مارنا چاہتے ہیں؟
سکولوں میں تفریح کا سلسلہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔تعلیمی ماحول کو موثر بنانے کے لیے تفریح انتہائی ضروری ہوتی ہے مگر اس حادثے کے بعد لودھراں کے تمام سکولز میں تفریح بند کر دی گئی ہے، یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم حادثات اور سانحات کے کے بعد ایسے ناروا اقدام کر کے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوششیں کرتے ہیں، یا بہ الفاظِ دیگر ہم ایسے واقعات کے بعد کچھ نہ کچھ کر دِکھانا چاہتے ہیں چاہے وہ تفریح جیسے ایک پسندیدہ عمل کی بندش ہی کیوں نہ ہو؟