سوال (2526)
ہمارے علاقوں میں دہریے کافی تعداد میں ہیں، جن کے خلاف بریلوی دیوبندی و اہل حدیث سارے ایک سٹیج سے کام کر رہے ہیں، سٹیج بریلوی حضرات یا دیوبندیوں کے پاس ہوتا ہے، کیونکہ ان کی اکثریت ہے، کیا ان کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں؟ اگر کیا جائے تو بدعتیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا سب کچھ کرنا پڑتا ہے، حتی کہ بعض اوقات نماز کے وقت وہ امامت کروائیں گے تو کھڑا ہونا پڑتا ہے، ایسے حالات میں اہل حدیث داعی کیا کرے؟ کیونکہ دہریے اسلام کے خلاف آئے روز ہرزہ سرائی کرتے ہیں؟
جواب
میں طالب علم کی حیثیت سے یہ رائے دوں گا کہ کچھ پروگرام سیاسی لحاظ سے ہوتے ہیں، یقیناً وہاں ہمیں تعداد و افراد کے لحاظ سے غلبہ حاصل نہیں ہوتا ہے، وہاں فائدہ حاصل ہو رہا ہے تو فائدہ حاصل کرنا چاہیے، کیونکہ کام دہریہ قسم کے لوگوں کے خلاف ہو رہا ہے، تو اس لحاظ سے مشترکہ پروگرام کی گنجائش دینی چاہیے، کوئی ایک نکتہ ہو جس پر تمام متفق ہوں، حالات اسی کا تقاضہ کر رہے ہیں، اہل علم اس کی اجازت دیتے ہیں، باقی منھج کی حفاظت کرنی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کسی کے ساتھ کسی خاص مقصد کے لیے مل کر کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں اگر صرف اسی مسئلہ تک رہیں، سیرت میں حلف الفضول سمیت کئی مثالیں موجود ہیں، لیکن جس سیرت سے ان کاموں میں انکے ساتھ شامل ہونے کا جواز ملتا ہے اسی سیرت سے یہ بھی قید ملتی ہے کہ صرف اسی مسئلہ تک ہی محدود رہنا چاہیے باقی کسی غیر شرعی کام میں موافقت نہیں کرنی چاہیے، یہ اوپر ایک واضح اصول بیان کر دیا ہے، لیکن ہمیں اس اصول میں سے دوسرے حصے یعنی صرف اسی مسئلہ تک موافقت کرنا یاد نہیں رہتا یا پھر غیر منطقی لگتا ہے، کیونکہ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جب مشرکوں سے موافقت کرنی ہے تو پھر ان کے دل کو توڑنا۔ بھی شاید غلط ہوگا اور یہی بہت بڑی خرابی ہے، کیونکہ ہم نے انکی موافقت اختیار ہی اس لیے کی ہے کہ دوسرے دہریے وغیرہ جو شریعت کا بیڑا غرق کر رہے ہیں، ان کو روکا جا سکے لیکن اگر اس کام میں وہی حلیف ہی شریعت کا بیڑا غرق کر رہے ہوں تو اور اس میں ساتھ دے کر ہی دوسرے کو روکا جا سکے تو یہ ایسے ہی ہوگا، کہ کوئی کسی کو گالیاں دینے سے روکنے کے لیے گالیاں ہی دینا شروع کر دے۔
فض الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ