کیا خواتین علماء کا خطاب سننے کےلیے مسجد میں جمع ہوسکتی ہیں؟:
خواتین کو مساجد سے روکنے کےلیے شیخ کے استدلال کی بنیاد دو حدیثوں پر ہے۔

1) خواتین کےلیے نماز ان کے گھر میں افضل ہے ۔
2) جب خواتین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درس کے لیے ایک دن متعین کرنے کی درخواست کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد کے بجائے کسی کے گھر میں جمع ہونے کا حکم دیا۔
اگر شیخ حفظہ اللہ کا یہ استدلال ان دونوں حدیثوں سے درست ہے تو پھر بدعت کا یہ حکم صرف ان دروس پر کیوں لگے گا جن میں خواتین کا خطاب ہوتا ہے۔
ان حدیثوں کی روشنی میں تو خواتین مساجد کے ان اجتماعات میں بھی شریک نہیں ہوسکتیں جن میں مرد علماء کرام کا خطاب ہوتا ہے ۔
کیونکہ اگر استدلال یہی کہ عورتوں کے لیے نماز گھر میں افضل ہے اس لیے عالمات کا خطاب سننےکےلیے وہ مسجد میں نہیں جاسکتیں تو مرد علماء کرام کا خطاب سننےکےلیے بھی ان کو مسجدمیں نہیں آنا چاہیے، کیونکہ اس حالت میں بھی ان کی نماز گھروں میں ہی افضل ہے۔
اور اگر استدلال یہ ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی درس دینےکےلیے خواتین کو مسجد میں جمع نہیں کیا تو دعوتی اداروں کو علماء کا خطاب سننےکےلیے بھی عورتوں کو مسجد میں جمع نہیں کرنا چاہے۔
الغرض اگر شیخ حفظہ اللہ کا استدلال خواتین کے خطاب کےلیے درست ہے تو پھر اس حکم کا اطلاق علماء کرام کے بھی خطاب پر بھی ہوگا اور اگر درست نہیں تو جیسے علماء کرام کا خطاب سننے کےلیے عورتیں مسجد میں جمع ہوسکتی ہیں عالمات کا خطاب سننے کےلیے بھی جمع ہوسکتی ہے۔ قاعدہ ہے “الحكم يدور مع علته وجودا وعدما” حکم اپنی علت کے ساتھ گھومتا رہتا ہے، جہاں علت پائی جاتی ہے وہاں حکم پایا جاتا ہے، جہاں علت نہیں پائی جاتی حکم بھی نہیں پایا جاتا۔
تو اگر علت “خواتین کا جمع ہونا” ہی ہے تو وہ تو علماء اورعالمات دونوں کے خطاب میں پایا جاتا ہے۔ تو حکم بھی دونوں پر یکساں ہی لگنا چاہیے۔
لیکن اس بات کا قائل تو کوئی نہیں، تمام اہل حدیث مساجد، دعوتی ادارے، اور تنظیمیں علماء کا خطاب سننے کےلیے مساجد میں مستورات کا علیحدہ انتطام کرتے ہیں، خود صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے کئی اجتماعات میں خواتین کے لیے مساجد میں معقول انتظامات کیے جاتے ہیں۔
بلکہ شاید شیخ حفظہ اللہ خود بھی اس بات کے قائل نہیں کہ عورتیں علماء کا خطاب سننے کے لیے مسجد میں نہیں آسکتیں کیونکہ جس اجلاس میں وہ خطاب کرر ہے ہیں وہاں خود خواتین شیخ کا خطاب سننے کےلیے آئی ہوئی ہیں تو شیخ کو توپہلی فرصت میں ان خواتین کو حکم دینا چاہیے تھا کہ وہ ابھی کے ابھی مسجد خالی کردیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ “عائشہ کو بھیج دوں گا؟”
معذرت کے ساتھ یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ شیخ حفظہ اللہ کا یہ استدلال نہایت ہی نا معقول بلکہ مضحکہ خیز ہے کہ ” جب خواتین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص اپنی دینی تعلیم کے لیے دن متعین کرنے کو کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ میں عائشہ کو بھیج دوں گا”
پہلی بات تو جب خواتین ڈائریکٹ نبی ﷺ سے دین کا علم حاصل کرنا چاہتی تھیں تو نبی ﷺ کسی امتی کو کیوں بھیجتے؟
حضرت عائشہ کا علم و فضل میں مرتبہ کتنا ہی بلند ہو نبی ﷺ سے تو کمتر ہی تھا، تو جب نبی ﷺ سے دین سیکھنے کی گنجائش موجود تھی تو نبی ﷺ حضرت عائشہ کو کیوں بھیجتے؟ اور خواتین خود نبی ﷺ کے ہوتے ہوئے حضرت عائشہ سے دین کیوں سیکھتیں؟
اور دوسری بات یہ کہ نبی ہونے کی حیثیت سے یہ آپ کا فرض منصبی تھا کہ جو آپ سے دین کے علم کا سوال کرے آپ اس کو دین سکھائیں، ان خواتین کو منع کرنا نبی ﷺ کے نبوی منصب کے خلاف بات تھی۔
اور تیسری بات یہ کہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے دعوت و تدریس کی یہ ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لیں اور صحابہ وتابعین میں بلا تفریق مرد و خواتین نے آپ سے دین کا علم حاصل کیا، یہاں تک کہ حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں۔

“ما أشكَل علينا أصحابَ رسول الله حديثٌ قط، فسأَلنا عائشةَ إلا وجَدنا عندها منه عِلمًا”

جب بھی ہم صحابہ کو اللہ کے نبی ﷺ کی کسی حدیث سے متعلق اشکال ہوتا تو ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے پوچھتے، اور جب بھی ان سے سوال ہوتا تو ان کے پاس کا کچھ نا کچھ علم ہم ضرور پاتے”
اگر خواتین سے دین کا علم خواتین نہیں حاصل کرسکتیں تو مرد حضرات تو بدرجہ اولیٰ حاصل نہیں کرسکتے، لیکن یہاں تو صحابہ اور تابعین نے بلاتفریق حضرت عائشہ کے دینی علم سے استفادہ کیا ، ان کے شاگردوں میں جہاں بڑے بڑے صحابہ اور تابعین کا نام ہے، علم وفضل میں شہرت رکھنے والی عظیم خواتین بھی ان کے حلقہ درس سے وابستہ رہیں، جن میں بطور خاص ان کی بہن ام کلثوم، بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمن ، عمرہ بنت عبدالرحمن الانصاریہ، ام منصور صفیہ بنت شیبہ الفقیھہ ، ام الدرداء الصغریٰ الفقیھۃ قابل ذکر ہیں۔
کیا نسواں مدارس بند کردیے جائیں:
شیخ حفظہ اللہ کے فتوے کے مطابق تدریس اور دعوت کا کام صرف علماء کرام کا ہے، عالمات کا نہیں، تو اس پر ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ تو کیا پھر نسواں مدراس بند کردیے جائیں؟ تمام ہی نسواں مدارس میں تدریس تو عالمات ہی کرتی ہیں، اور طالبات کو دین کا علم دے رہی ہیں، یہ عالمات ہی تفسیر، حدیث ، فقہ سمیت سارے دینی علوم پڑھاتی ہیں، اگر یہ عالمات عام خواتین کو دین کی بنیادی باتیں بتانے کی اہل نہیں ہیں تو اتنی گہرائی میں جاکر ان علوم دینیہ کو پڑھانے کی اہل تو بدرجہ اولی نہیں ہیں، لہذا مساجد میں ان کے دروس بند کرانے سے پہلے نسواں مدارس میں ان کی تدریس بند کرانی چاہیے۔
نتیجہ کیا نکلے گا:
اس میں شک نہیں کہ وقت کے ساتھ خواتین کے مساجد میں ہونے والے دروس میں کچھ مفاسد در آئے ہیں، کچھ داعیات فتوی بازی کی راہ پر چل پڑی ہیں، کہیں کہیں ویڈیو بنانے کا فتنہ بھی ابھرا ہے اور بھی کچھ مسائل ہیں لیکن ان دروس میں صرف مفاسد نہیں فائدے اور مصلحتیں بھی ہیں، اور ان شاء اللہ اوور آل ان دروس کے مصالح ان کے مفاسد پر غالب ہیں۔ خواتین اس وقت مردوں سے زیادہ شرک، بدعات، خرافات اور جہالتوں میں مبتلا ہیں، ہر باطل نظریہ ان کا شکار کر رہا ہے، ہر فتنہ ان کو اچکنے کے تاک میں ہے، ان حالات میں صرف جمعہ کے خطبے خواتین کی تربیت کے لیے کافی نہیں ۔ایسی عالمات کی سخت ضرورت ہے جو خواتین میں دعوت و تربیت کا کام کرسکیں۔
الحمد للہ شہروں میں خواتین کے دروس کا ایک اچھا ماحول بنا ہے، معاشرے پر اس کے بہترین اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ خواتین دین کی طرف آرہی ہیں، شرک وبدعات سے توبہ کر رہی ہیں، قرآن حفظ کرنے، تجوید سیکھنے اور ترجمے سے قرآن پڑھنے کا مزاج خواتین میں مردوں سے زیادہ بن رہا ہے، خود میرے علم میں کتنے گھرانے ہیں جہاں خواتین ان دروس کی برکت سے شرک وبدعات سے توبہ کرکے اہل حدیث ہوگئی ہیں جبکہ مرد حضرات اب تک گمراہی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس لیے جہاں مفاسد ہیں وہاں مفاسد کی اصلاح کی بات کرنی چاہیے، مفاسد کا حوالہ دے کر دروس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنا کوئی حکمت پر مبنی فیصلہ نہیں، اس سے تو حالات اور خراب ہوجائیں گے، اگر معتبر منہجی عالمات اور داعیات کو دروس سے روک دیا جائے گا تو خواتین گھر پر نہیں بیٹھیں گی، ہر شہر میں جماعت اسلامی کی شعبہ خواتین خوب سرگرم ہیں، خواتین ان غیر منہجی داعیات کے دروس کا رخ کریں گی، بلکہ اکثر علاقوں میں خواتین کے دروس کا اہتمام کرنے کے پیچھے مقصد ہی خواتین کو ان گمراہ داعیات کے دروس میں جانے سے روکنا ہے۔
آپ نے فرحت ہاشمی صاحبہ کا حوالہ دیا ، میں ذاتی طور جانتا ہوں کہ ان سلفی داعیات کے دروس سے بہت ساری خواتین کو ہاشمی صاحبہ کی غلطیوں پر آگاہی ہوئی ہے۔ اور ان کی کلاسز چھوڑ کر خواتین ان سلفی داعیات سے جڑی ہیں۔ (جاری)

تحریر: سرفراز فیضی