سوال (1063)

علمائے کرام پگڑی پر مسح کے لیے ضروری ہے کہ پگڑی وضوء کر کے پہنی ہو ؟ اور اگر پگڑی اتارنا مشکل نہ ہو تو مسح کیا جا سکتا ہے؟؟؟

جواب

پگڑی پر مسح کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے کہ اسے وضوء کے بعد زیب سر کیا ہو ، پگڑی پر مسح کی اجازت ہے ۔ اسے اتارنا آسان ہو یا مشکل ، ویسے پگڑی کو سر سے اتارنا کونسا مشکل کام ہے؟

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

(1) : ضروری نہیں ہے کہ کیونکہ سر میں مسح برخلاف پاؤں کے اصل ہے
(2) : مسح کیا جا سکتا ہے ۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اس چیز کا ذکر کیا ہے کہ عمامہ پہ مسح کرنے کے لیے لازم ہے کہ وہ باوضو پہنا ہو ، اگرچہ ہمارے پاس کوئی نص نہیں ہے ، لیکن شیخ نے یا بعض علماء نے اس طرح ذکر کیا ہے ، دوسرا اس عمامہ میں مسح کی اجازت جس میں دقت ہو ، مشقت سے اتارا جاتا ہے ، بنایا جاتا ہے ، اور پہنایا جاتا ہے ، جس میں آسانی ہو اس کو اتارنا چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

پگڑی پر مسح کےلیے طہارت کی شرط نہیں ہےاس حوالے سے نبی علیہ السلام اور صحابہ میں سے کسی سے کچھ ثابت نہیں ، سوائے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ، موطاء میں بلاغیات میں سے ہے کہ ان سے عمامہ پر مسح کا سوال کیا گیا تو فرمایا :

لا،حتی یمس الشعر بالماء۔

نہیں جہاں تک کہ بالوں کو پانی سے مس کیا ہو۔
ترمذی اور ابن ابی شیبہ (غالباً) یہ قول موصولا اور الفاظ سے ہے۔ جس سے شارحین نے مطلقا عدم مسح علی العمامہ مراد لیا ہے۔
یعنی جابر رضی اللہ عنہ جواز کے قائل نہ تھے واللہ اعلم۔
باقی عام علماء کا یہی فتویٰ ہے۔

قال ابن حزم: (وسواءٌ لَبِس ما ذَكرْنا على طهارةٍ أو غيرِ طهارة… وقال أصحابُنا كما قلنا). [المحلى : 1/309]

امام احمد سے ایک روایت میں ہے جیسا کہ المرادی نے الانصاف میں ذکر کیا۔

قال النوويُّ: (قال ابن المُنذِر: ممَّن مسح على العمامة أبو بكر الصِّدِّيق، وبه قال عمرُ وأنس بن مالك، وأبو أُمامة، ورُوي عن سعد ابن أبي وقَّاص، وأبي الدَّرداء، وعمر بن عبد العزيز، ومكحول، والحسن، وقتادة، والأوزاعيِّ وأحمد، وإسحاق، وأبي ثور، ثم شرَط بعضُ هؤلاء لُبسَها على طهارة، وشرَط بعضُهم كونها محنَّكة، أي: بعضها تحت الحنك، ولم يَشتَرِط بعضُهم شيئًا من ذلك). [المجموع :1/407 وينظر: شرح النووي على مسلم : 3/172]

ابن المنذر کہتے ہیں سلف میں سے ان مذکورہ بالا سے مسح علی العمامہ وارد ہے کسی نے طہارت کی شرط نہیں لگائی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ عثیمین نے اسی کو اختیار کیا ہے واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ