محترم عسکری صاحب یا تو اتنے سادہ دل ہیں کہ انہیں بدیہی معاملات بھی فرقہ وارانہ لگتے ہیں یا پھر اہل سنت کو کیا سمجھتے ہیں جن کو سادہ سی باتوں کی سمجھ بھی نہیں۔ یاد رکھیں:
1 : امامیہ کا آفیشل موقف اسے مانا جائے گا جو ان کے جمہور متقدمین کے ہاں پایا گیا ہے۔ یہ کوئی فقہی جزئی نہیں کہ جمہور سے ہٹ کر بات کو آفیشل موقف مان لیا جائے۔ یہ قرآن جیسی کتاب کی تحریف کا مقدمہ ہے۔
2 : امامیہ کے تقریبا تمام بڑے محققین نے تحریف والی اپنی روایتوں کو صحیح قرار دے رکھا ہے۔ خمینی سے لے کر خوئی تک اور خوئی سے لے کر باقر مجلسی تک ! بعض نے واضح انداز میں تسلیم کیا ہے کہ تحریف ہوئی ہے اور بعض نے بظاہر تو تحریف کا انکار کیا ہے مگر روایات کی تصحیح کر دی ہے۔ اور ان روایات کو متواتر قرار دیا گیا ہے۔
3 : اہل سنت کے فرد واحد نے بھی کبھی تحریف کی بات نہیں کی۔ بعض روایات سے اگر ایسا کوئی مفہوم لوگوں خو سمجھ آیا ہو تب بھی اہل سنت کے ہاں ان روایات کی مراد ویسی نہیں ہے۔ لہذا دونوں اطراف کی روایات کو ایک جیسا قرار دینا علم و انصاف کا خون ہے۔ جو امامی مناظرین تو کریں سو کریں، آپ ایسے سمجھ دار لوگ بھی کریں تو حیرت ہوتی ہے۔
4 : امامیہ کا اخباری فرقہ آج بھی تحریف کی بات کرتا نظر آجاتا ہے۔
5 : یہ موقف ان کی اصولی کتابوں میں بھی پایا گیا ہے۔
6 : ویسے تو ان کے آپسی اختلافات ایسے ہیں کہ چند فضائل کے انکار و اختلاف پر ایک دوسرے کی تکپیر کر دیتے ہیں۔ جو سیدنا علی کے من گھڑت فضائل کا انکار کر دے اسے مقصر قرار دے کر اس پر وہ فتوے داغے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اس بنیاد پر ایک دوسرے کی تکپیر کا بازار بھی گرم رکھا جاتا ہے۔ لیکن مجھے کبھی ایسے بیانات ان کے سننے کو نہیں ملے۔ جن میں تحریف کی بنیاد پر اپنے کسی بابے کا شدید لفظوں میں رد کیا ہو۔ اگر بعض اہل قرآن شیعہ نے رد کیا تو الٹا ان کے خلاف ییی لوگ کھڑے ہوگئے ۔
تو بات اتنی سادہ ہے نہیں جتنی سادہ امت امت کے چکروں میں عسکری صاحب نے بنا دی ہے۔ لہذا جاگتے رہنا ہمارے اسکالرز پر نہ رہنا۔

محمد حماد