سوال (2399)

ایک نوجوان نے والدین اور بڑے بھائی کے شدید مجبور کرنے پر اپنی بیوی کو تین اکٹھی طلاقیں دے دیں، کیا طلاق ہوئی؟ جبکہ نوجوان دلی طور پر راضی نہ تھا اور اب بھی پشیمان ہے۔ کچھ صورت حال اس طرح ہے کہ اس نوجوان کی اپنی خالہ زاد سے شادی ہوئی تھی، نوجوان کے والدین اور بڑے بھائی کا نوجوان کے سسرال سے جھگڑا ہوا، انہوں نے نوجوان کو بیوی کو طلاق دینے پر شدید اصرار کیا، نوجوان نے والدین اور بڑے بھائی کے شدید مجبور کرنے پر اپنی بیوی کو تین اکٹھی طلاقیں دے دیں۔ جب کہ وہ دلی طور پر راضی نہ تھا اور نوجوان کی بیوی بھی بے گناہ تھی، صرف انا کی خاطر طلاق دلوائی گئی۔ کیا طلاق واقع ہو گئی ہے۔

جواب

جی ہاں طلاق تو واقع ہوگئی ہے، بھلے اس نے تحریراً، زبانی، واٹس ایپ یا وکیل کے تھرو دی ہے، ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے، سوال میں جو مذکور ہے، وہ جبر میں شمار نہیں ہوتا ہے، جس جبر میں طلاق شمار نہیں ہوتی ہے، وہ دھمکی یا جبر اس درجے کا ہوتا ہے کہ کسی عضو کے تلف ہونے کے بارے میں دھمکی دی گئی ہو، زبان، ہاتھ اور پاؤں وغیرہ۔ بہرحال ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

مذکورہ صورت میں ایک طلاق واقع ہوگئی ہے،
اکراہ کی یہ ایسی صورت نہیں ہے کہ مجبوری کا عذر قبول کیا جائے، اگر اکراہ و اضطرار ایسا ہوتا کہ طلاق نہ دینے پر قتل کردیا جانا یا کسی عضو کا نقصان یقینی ہوتا یا اس کا غالب گمان ہوتا تو تب دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لیکن مذکورہ شدید اصرار اکراہ کی ایسی صورت نہیں ہے لہذا طلاق واقع ہوچکی ہے، اب عدت کے دوران رجوع کرسکتے ہیں یا عدت اگر گزر گئی ہے تو تجدید نکاح ہوسکتا ہے البتہ ایک طلاق شمار کی جائے گی۔ مزید تفصیل کے لئے الوجیز میں اکراہ ملجئ و غیر ملجئ کی بحث دیکھ لی جائے۔
یہ طلاق بالجبر نہیں ہے۔
واللہ اعلم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

جبرا دلوائی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، شرعی اعتبار سے اس طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ حقیقتاً جو طلاق دینے کا اختیار رکھنے والا شخص ہے، وہ خاوند ہے اور خاوند نہ چاہے لیکن دیگر افراد خانہ اسے مجبور کریں تو ان کے جبر کی وجہ سے اگر وہ طلاق دے دے تو اس طلاق کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«لَا طَلَاقَ، وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ» [سنن ابن ماجۃ: 2046]

«کسی کے مجبور کرنے پر دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی»
امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے:

طَلاَقُ السَّكْرَانِ وَالمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ
[صحیح البخاری: کتاب الطلاق، باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ…قبل حدیث، 5269]

«نشے والے اور مجبور کی طلاق جائز نہیں ہے»
اسی طرح سنن سعید بن منصور میں بھی منقول ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

«لَيْسَ لِمُكْرَهٍ وَلَا لِمُضْطَهِدٍ طَلَاقٌ» [سنن سعید بن منصور: 1143]

«مجبور کیے گئے اور مغلوب و مقہور شخص کی طلاق جائز نہیں ہے»
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (لیس بجائز) کا مطلب بیان کیا ہے کہ : (لیس) بواقع۔
[دیکھیے: فتح الباری: جلد،9، صفحہ، 392]
ثابت بن عیاض رحمہ اللہ کو جب لوگوں نے قتل کی دھمکی دے کر مجبور کیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے؛ تو ان کے طلاق دے دینے کے باوجود سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے انھیں فرمایا تھا کہ تمہاری بیوی تم پر حرام نہیں ہوئی۔ تم اپنی بیوی کے پاس جاؤ۔
[موطا امام مالک، مع تعلیق، محمد فواد عبدالباقی: کتاب الطلاق، باب جامع الطلاق]
لہذا صورت مسئولہ میں اگر اس شخص پر واقعی ہی جبر ہوا ہے تو اس کی بیوی کو طلاق نہیں ہوئی، وہ اپنی اس بیوی کے ساتھ اپنا گھر بسا سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم امان اللہ عاصم حفظہ اللہ