سوال (145)

آپ کی بیٹی کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ آپ کو وہ لڑکا پسند نہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، اس سے بحث نہیں، لیکن آپ پوری چھان بین کے بعد اپنے تئیں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ رشتہ آپکی بیٹی کیلئے مناسب نہیں۔ آپ اپنی بیٹی کو ہر طرح سے سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کر لیتے ہیں۔ پر وہ نہیں مانتی۔ کہتی ہے کہ شادی کروں گی تو اسی سے کروں گی ورنہ نہیں!!
اس صورت میں وقتی اور طویل المیعاد پلاننگ کیا ہو گی؟ اور کیوں؟

جواب:

شریعت نے شادی کے لیے والدین اور بچے دونوں کی رضامندی ضروری قرار دی ہے۔
والدین اس لیے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن پر جبر و زبردستی کرے، بلکہ ولی کا وظیفہ یہ ہے کہ لڑکی کی رضامندی کو سامنے رکھتے ہوئے ، کسی مناسب ترین رشتہ کا انتخاب کرے، اور لڑکی کو بھی چاہیے کہ جلدبازی میں کوئی جذباتی فیصلہ کرنے کی بجائے ولی کی مدد واجازت کے مطابق چلے، کیونکہ شریعت نے ایک کامیاب و بہترین نکاح کے لیے لڑکی کی رضامندی اور ولی کی اجازت دونوں کو بنیادی حیثیت دی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کو بہت متوازن انداز سے بیان کیا ہے، اور اس حوالے سے وارد احادیث پر تین ابواب (عناوین) قائم کیے ہیں:
(1)ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
(2)باپ ،دادا کو چاہیے کہ اپنی زیرکفالت بچی کا نکاح اس کی رضامندی سے کریں۔
(3)اگر باپ دادا زبردستی کریں تو نکاح مردود ہو گا۔
لہذا لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہے اور ولی کی اجاز ت بھی ضروری ہے ،اگر ولی اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں گناہ گار بھی ہے، اور حقِ ولایت سے بھی محروم ہو جائے گا، اور جو لڑکی اپنے باپ دادا، اور خاندان کی عزت کو داؤ پر لگاتے ہوئے خود نکاح کرتی ہے، وہ بھی مجرم ہے، اور اس کا نکاح بھی نہیں ہو گا۔
یہ تو تھا شرعی اعتبار سے اس کا جواب۔
اسی بات کو مزید اس انداز سے کھولا جا سکتا ہے کہ والدین میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بچوں سے زیادہ ہوتی ہے، پھر وہ ایک طویل تجربے سے گزر بھی چکے ہوتے ہیں، لہذا ان کے اندر یہ کوالٹی موجود ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچے بچیوں کو جذباتی فیصلوں کے نقصانات سمجھا سکیں!!
تاکہ وہ خوش دلی سے والدین کی بات کو قبول کرنے پر تیار ہو جائیں!!
والدین کی موجودگی میں بچے یا بچی کا کسی ایک بات پر مصر ہو جانا، یہ والدین کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے، جس کا مطلب یہی ہے کہ انہوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے ساتھ افہام و تفہیم پر توجہ نہیں دی۔
فورا بچی کے اصرار پر رشتے کروا کر ( جس میں عموما بعد میں نباہ کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں اور لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں) بعد میں آنے والی مصیبتیں بھی والدین نے ہی برداشت کرنی ہوتی ہیں۔ کیونکہ والدین بچے یا بچی کو ان کی مرضی پر آزاد چھوڑ کر ان کی بعد والی زندگی سے لاتعلق نہیں ہو سکتے!!
حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک لڑکے/ لڑکی نے گاڑی، پلاٹ جیسا وقتی فیصلہ کرنا ہو تو اہتمام کے ساتھ ماہرین سے مشورے کیے جاتے ہیں، حتی کہ فیسز تک ادا کی جاتی ہیں، لیکن پوری زندگی کا ساتھی اختیار کرنے کے لیے والدین اور بڑوں سے رائے لینے کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے!!
حالانکہ اس قسم کے جذباتی فیصلوں میں جب تھوڑی دیر بعد نقصانات ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں، تو زیادہ بوجھ والدین پر ہی آتا ہے کہ بچے تو بیوقوف اور جذباتی ہوتے ہیں… تم لوگ کہاں تھے؟!لہذا یہ بات تو درست ہے کہ والدین کو بچوں پر سختی کر کے انہیں بدظن بھی نہیں کرنا چاہیے، یا اپنی انا کی خاطر اچھے رشتے کو ٹھکرانا نہیں چاہیے، لیکن بچوں کو ان کی مرضی اور آزادی پر چھوڑنا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
والدین اور بچوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے تو کسی ایک بات پر اصرار، ضد اور ہٹ دھرمی کرنے کی بجائے رشتے بدل بدل کر دیکھے دکھائے جائیں، جہاں والدین کو پسند نہیں، وہاں لڑکا/ لڑکی مزید کوئی اور پسند کا اظہار کریں، اور جہاں لڑکے/ لڑکی کو پسند نہیں وہاں والدین کوئی اور رشتہ دیکھیں!!
دونوں میں سے کوئی بھی ایک بات پر اڑ گيا، تو ننانوے فیصد نتائج یہی نکلتے ہیں کہ دونوں کی زندگی عذاب نہ بچے خوش نہ والدین کو آرام!!
اور یہ جو بچوں میں ہوتا ہے کہ فلاں جگہ نہ ہوئی تو کرنی ہی نہیں، یا میں مرجاؤں گا یا مر جاؤں گی، یہ محض وقتی ابال ہے، اور ایک نفسیاتی خامی اور کمزوری ہوتی ہے، یہ سب محبتیں چند دنوں اور مہینوں بعد ہوا ہو جاتی ہیں!!
وقتی طور پر آپ کا بچہ یا بچی اپنی ضد پوری نہ ہونے پر واقعتا کوئی خطرناک قدم اٹھا سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب قطعا یہ نہیں کہ ان کا فیصلہ بالکل درست ہے!! یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کوئی پاگل کہے کہ مجھے بجلی کی تاروں کو ہاتھ لگانے دو ورنہ میں چھت سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لوں گا، تو اسے کہا جائے کہ آپ چھلانگ نہ لگائیں، لیکن تاروں کو ہاتھ لگا لیں!!
یہ ایک مشکل اور کریٹیکل صورت حال ہوتی ہے، جس میں مریض کو سنبھالنے کی سب سے بڑی ذمہ داری اس کے ارد گرد کے عقلمندوں اور بالخصوص والدین کی ہوتی ہے، بذات خود بچہ یا بچی مرفوع القلم، مخمور العقل اور مغلوب الجنون کے حکم میں ہوتے ہیں!!

فضیلۃ الشیخ خضر حیات حفظہ اللہ