لشکرِ فِیل جہالت پہ اتر آیا ہے

‏وہ عرب کے ارب پتی مسلمان ہوں یا عجم کے ایٹمی طاقت سے مالا مال حکمران، یہ سب ڈھارس بندھانے اور دلاسے دینے تک پر بھی آمادہ نہیں، ان کے لہجے خائف ہیں، ان کے عزائم میں ضعف اور ناتوانی اتنی ہے کہ اہلِ فلسطین کے دریدہ دامن، لیر و لیر وجود اور بے سروسامانی دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نرماہٹ کا کوئی جذبہ بھی انگڑائی نہیں پاتا، ان کی بے مروتی اور بے وفائی بہ ذاتِ خود ایک بہت بڑا ظلم ہے۔غزہ کا تہس نہس کر دیا گیا، وہ سنسان کدے اور ویران خانے میں بدل دیا گیا، اس قدر ظلم و سربریت دیکھ کر بھی امّتِ مسلمہ کے حکمرانوں پر ایک پراسرار خاموشی طاری ہے، غزہ کی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 22 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران شہریوں کی اموات بڑھتی جا رہی ہیں، اقوامِ متحدہ بھی غزہ میں انسانی بحران کے بارے میں آگاہ کر چکی ہے، اب تک اس لڑائی کے دوران لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، یہی نہیں بلکہ ہزاروں افراد جنگ کے ساتھ ساتھ قحط اور بیماریوں کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔شقاوت قلبی اور سنگ دلی کے بھی آداب ہُوا کرتے ہیں، درندگی اور سفاکیت بھی کچھ تو اطوار اور سلیقے رکھا کرتی ہیں، شقی القلبی اور سنگلاخ دلی کے بھی کچھ قرینے ہُوا کرتے ہیں اور مجھے کہنے دیجیے کہ جنگ کرنے اور مرنے مارنے کے بھی کچھ تو اصول و ضوابط ہوتے ہیں مگر اسرائیلی وحشی عجیب جہالت پر آئے ہیں کہ حماس کے شیروں کا مقابلہ کرنے کی بجائے عام شہریوں پر بم باری کر کے انھیں بھسم کرتے چلے جا رہے ہیں، صہیونی فوج عام شہریوں پر تشدد کرتی ہے، ایک ویڈیو میں آنکھوں پر پٹّی بندھے درجنوں فلسطینی نوجوانوں کو دیکھا جا سکتا ہے جو نیم برہنہ حالت میں ایک سڑک کنارے بیٹھے ہیں جب کہ ان میں سے کچھ کو ٹرک میں بٹھایا گیا ہے۔یہودی فوج جن نوجوانوں کو حراست میں لیا اور انھیں تضحیک کا نشانہ بنا رہی ہے، ان میں ڈاکٹرز اور صحافی بھی شامل ہیں۔عمران پرتاب گڑھی کی نظم کا بہت عمدہ شعر ہے:-
لشکرِ فِیل جہالت پہ اتر آیا ہے
اے خدا پھر سے ابابیلوں کو کنکر دے دے
اقوامِ متحدہ کے انسانی ہم دردی کے امور کے سربراہ کا نام مارٹن گریفتھس ہے، اس کے بہ قول اسرائیلی فورسز کی جانب سے مسلسل بم باری کے بعد غزہ ناقابلِ رہایش ہو چکا ہے۔غزہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا، غزہ کی فضاؤں میں سناٹے گُھلے ہیں، 7 اکتوبر 2023 ء سے جاری بھیانک حملوں کے تین ماہ بعد، غزہ موت اور مایوسی کی آماج گاہ بن چکا ہے، غزہ اب لوگوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا، آج عالمی برادری 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنے میں ناکام و نامراد ہے، غزہ کی پٹّی کا اکثر حصہ پہلے ہی ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔اسرائیلی درندے فوجی عورتوں، بچوں اور ہسپتالوں پر وحشیانہ بم باری کرنے میں ذرا تامّل نہیں کرتے۔عالمی ادارہ ء صحت نے کہا ہے کہ غزہ میں ہر شخص بھوک کی وجہ سے بھی شدید پریشان ہے۔وہاں خوراک دستیاب نہ ہونا ایک معمول بن چکا ہے اور ہر روز ہر شخص زندہ رہنے کی ایک جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔بھوک کے آزار انسانوں کو نحیف و ناتواں کر ڈالتے ہیں، بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ غزہ میں مختلف امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں، وہاں اکتوبر کے وسط سے لے کر اب تک تقریبآ دو لاکھ افراد سانس کے شدید انفیکشن میں مبتلا ہو چکے ہیں، پانچ سال سے کم عمر کے ڈیڑھ لاکھ بچے اسہال کے شکار ہیں، یرقان میں پانچ ہزار سے زائد اور خارش جیسی موذی بیماری میں ہزاروں افراد مبتلا ہو چکے ہیں۔
آج غزہ اجڑتا جا رہا ہے، وہاں کی فضاؤں میں بارود کی بُو رچ بس گئی ہے، غزہ میں دَم توڑتی سسکیاں امّتِ مسلمہ کے ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں مگر من حیث المجموع ضمیر اور خمیر کسی پتھر میں ڈھل چکا ہے، دودھ پیتے بچوں کے ادھڑے اور خون آلود کٹے پھٹے جسموں کا کوئی ایک درد آلود منظر دیکھ کر بھی بھی عرب و عجم کے تمام حکمرانوں کے دل میں کرب اور اضطراب کی خفیف سی لہر بھی پیدا نہیں ہو رہی۔ اتنی بے چارگی اور اس قدر بے بسی اور بے چارگی، ماضی میں کہیں دُور دُور تک نظر نہیں آتی۔یقینا فلسطین کے بے کس اور مظلوم لوگوں کی آنکھوں میں کچھ خواب بسے ہوں گی، ان عورتوں اور بچوں کے دلوں میں بھی کچھ حسرتیں ضرور چُھپی ہوں گی، مگر وہ خواب اپنی آنکھوں میں بسائے چیختے چنگھاڑتے جنگی طیاروں کے برسائے گئے بموں کی آگ میں جھلس رہے ہیں، غزہ کی حسرتیں اب ویرانیوں میں بدل چکی ہیں، دودھ پیتے معصوم بچے بھی صہیونی سفاکیت سے محفوظ نہیں رہے، دشمن انتہائی غلیظ حرکتوں پر اتر آیا ہے عمران پرتاب گڑھی کا شعر ہے،
دُدھ مُنہے بچوں کے بھی خواب ہُوا کرتے ہیں
جنگ کرنے کے بھی آداب ہُوا کرتے ہیں

انگارے۔۔۔حیات عبداللہ

یہ بھی پڑھیں:بیرون ملک سے آنے والی ڈیڈ باڈی کو کیسے دفن کیا جائے؟