’لوگوں کی اقسام‘‘
لوگ چار قسم کے ہوتے ہیں:
پہلا وہ بندہ ہے کہ جس میں بذات خود خیر و بھلائی ہے، نیک و پاک طینت ہے اور اُس کی خیر و بھلائی متعدی ہے یعنی لوگ بھی اس کے علم و عمل سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ اس کے اقوال و افعال سے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ سب سے بہترین ہے یہ ایسا مومن ہے کہ جو قرآن مجید پڑھتا اور علوم دینیہ سیکھتا ہے خود بھی عمل کرتا ہے اور لوگوں کی بھی اصلاح و راہ نمائی کرتا ہے، جہاں پر بھی ہوتا ہے مبارک ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی صفت بیان ہوئی:
﴿وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ﴾
’’جہاں کہیں بھی میں رہوں اس نے مجھے بابرکت بنایا ہے۔‘‘ [سورة مريم: ٣١]
اس کی مثال اس پھل کی طرح ہے جو خود بھی میٹھا ہوتا ہے اور اس کی خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے۔
دوسرا وہ ہے کہ جو خود تو نیکوکار ہے، اعمال صالحہ کی سعی و کاوش کرتا ہے لیکن اس کے پاس اتنا علم نہیں کہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکے۔ یہ اس پھل کی طرح ہے جو ذائقے میں تو میٹھا ہوتا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی۔
یہ دونوں اقسام کے لوگ بہترین ہیں۔
تیسرا وہ بندہ ہے کہ جس میں بھلے خود کوئی خیر و بھلائی نہیں لیکن اس کی بد عملی و غلط کاری صرف اسی تک محدود ہے، وہ دوسروں کے لیے بھی باعثِ ضرر نہیں، لوگوں کو غلط راستے اور بے اعمال کی طرف دعوت نہیں دیتا۔
چوتھا وہ ہے کہ جو خود بھی برا ہے، اپنے آپ کو برائی و شر میں مبتلا کیے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی فتنے کا باعث بنا ہوا ہے، انہیں بھی اللہ کے راستے سے روکنے پر مُصر ہے اور معاشرے میں فساد وبگاڑ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ یہ سب سے بد ترین و زَبوں تر ہے ۔ اسی لیے اس کے لیے کئی گنا عذاب ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ﴾
’’جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکتے رہے۔ ہم ان کے عذاب پر مزید عذاب کا اضافہ کرتے جائیں گے اس لیے کہ وہ فساد مچایا کرتے تھے۔‘‘
[سورة النحل: ٨٨]
شیخ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کیونکہ وہ دوہرے تہرے مجرم ہیں۔ ایک یہ کہ خود اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور اس کی مخالفت کرتے رہے۔ دوسرے مختلف طرح کے حیلوں بہانوں سے دوسرے لوگوں کو حق قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔‘‘ (تیسیر القرآن)
(دیکھیں : التوضيح والبيان لشجرة الإيمان : ١٠١)
بعض وجوہ کی بنیاد پر ان اقسام کا اجمالی ذکر اس حدیث سے بھی مترشح ہو سکتا ہے، سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’اس مومن کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے سنگترے کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی لذیذ ہوتا ہے اور خوشبو بھی بہترین ہوتی ہے اور جو مومن قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور کی سی ہے اس کا ذائقہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں ہوتی اور اس منافق کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ریحانہ کی سی ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہوتی لیکن ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن کی تلاوت بھی نہیں کرتا اندرائن (تمہ) کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس کی بو بھی خراب ہوتی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری : ٥٠٥٩)
حافظ محمد طاھر