1۔ جو بندہ یہ چاہتا ہو کہ سر زمینِ انبیاء؛ مسجد اقصی؛ تیسری مقدس ترین جگہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر کفار کے پاس چلی جائے ۔
2۔ جو خواہش رکھتا ہو کہ کفار مسلمانوں کے کسی گروہ (چاہے وہ بدعتی گروہ ہو اُن) پر غالب آ جائیں۔
3۔ جو یہ سوچ رکھتا ہو کہ مسلمانوں کا زیادہ سے زیادہ نقصان ہو تاکہ ہم دنیا کو بتائیں کہ دیکھو فلاں گروہ کے بارے ہماری پشین گوئی صحیح ثابت ہوئی، اِسی نے مسلمانوں کا نقصان کروایا۔
4۔ جس کا دل مقتول مسلمانوں کی لاشیں دیکھ کر غمگین نہ ہو۔
5۔ جو مسلمانوں کے قتلِ عام پر مذاق بنائے، ہنسی اور ٹھٹھہ کرے یا میمز بنائے ۔
6۔ جو مظلوم مسلمانوں، بچوں اور عورتوں کے قتل پر موقع پا کر خارجی فکر پھیلائے اور مسلمانوں کو اُن کے اپنے ہی حکمرانوں اور علماء کے خلاف بھڑکائے کہ فلاں حکمران بزدل اور فلاں علماء درباری مولوی ہیں، جبکہ فلاں حکمران بڑا ہیرو اور فلاں بڑا حق پرست ہے، تاکہ اتحاد کی بجائے مزید افتراق ہو اور ہر جگہ فساد پیدا ہو جائے۔
7۔ جو یہ سمجھے کہ کفار کے ظلم کی وجہ دینی و شرعی علوم ہیں یا دیگر علاقوں کے مسلمانوں کے لیے بھی یہ وقت صحیح عقیدہ سیکھنے اور بیان کرنے کا نہیں لہذا شرک و بدعت اور حق وباطل پر بات نہ کی جائے بلکہ سب کچھ خلط ملط کر دیا جائے ۔
8۔ جو مسلمانوں کی آزمائش کے وقت انہیں وعظ و تذکیر کرتے ہوئے اور انابت الی اللہ کی تلقین کرتے ہوئے کوسنے کا انداز اپنائے، اور دلجوئی کا پہلو یکسر نظر انداز کر دے۔
9۔ جس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کی مظلومیت دیکھ کر بھی اہل کفر کے خلاف جہاد کی ذرا بھی خواہش پیدا نہ ہو۔
10۔ جو سمجھتا ہو کہ کسی علاقے یا گروہ کے مسلمانوں کو کافر بھیڑیے کے سامنے اس لیے لاوارث و لاچار چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ جنگ اُن کی اپنی غلطی کی وجہ سے شروع ہوئی ہے۔
جو درج بالا میں سے کوئی ایک بھی فکر رکھتا ہو تو اسے اپنے ایمان و دل پر نظر ثانی کرنی چاہیے وہ درج ذیل میں سے لازماً کوئی ایک ہے :
(الف) مَفتُون ہے، یعنی فتنے کا شکار ہو چکا ہے، یہ فتنہ مادہ پرستی، دنیا کی محبت، خارجیت یا ارجاء کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے۔
(ب) اَحمق ہے، جسے معلوم نہیں کہ کس وقت کیا بات کرنی ہے۔
(ج) شعوری یا لاشعوری طور پر الحاد و لادینیت کا شکار ہو چکا ہے۔
(د) اس کے دل کے کسی کونے کھدرے میں نفاق موجود ہے۔
نسأل الله السلامة والعافية.
اللہ تعالی ہمارے ایمان و عقیدے کی حفاظت فرمائے ۔

حافظ محمد طاھر