سوال (2582)
مروجہ عید میلاد النبی کے دن لوگوں کی طرف سے مختلف قسم کے کھانے بھیجے جاتے ہیں، خوشی اور ثواب کی نیت سے، ایسا کھانا جس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ غیر اللہ کی نذر و نیاز نہیں محض خوشی اور ثواب کی نیت سے تیار کیا گیا ہے. ایسے کھانے کو قبول کرنے اور اس کو کھانے کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب
اگر کھانے پینے اور صدقہ و خیرات کی اشیاء محض اللہ کی ذات کے لیے ہوں، اور اس میں غیر اللہ کی نذر و نیاز والا سلسلہ نہ ہو، تو اس قسم کے کھانے حرام تو نہیں ہیں، لیکن ان سے اس لیے گریز کرنا ضروری ہے تاکہ انسان بدعات و خرافات کی ترویج میں شریک اور حصہ دار نہ بنے۔
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميلاد النبى كے موقع پر ذبح كردہ گوشت كھانےكا كيا حكم ہے۔۔۔؟
تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
“اگر وہ ميلاد والے (يعنى جس كا ميلاد منايا جا رہا ہے) كے ليے ذبح كيا گيا ہے تو يہ شرك اكبر ہے، ليكن اگر اس نے كھانے كے ليے ذبح كيا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اسے كھانا نہيں چاہيے، اور نہ ہى مسلمان اس مجلس اور ميلاد ميں حاضر ہو، تا كہ وہ برائى كا عملى اور قولى طور پر انكار كر سكے؛ مگر انہیں نصیحت کرنے کیلئے حاضر ہو، اور ان کے ساتھ کھانے وغیرہ میں شریک نہ ہو. ” انتہى.
ديكھيں: [مجموع الفتاوى : 9 / 74]
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ