اگر اقتدار کی ہوس میں ہمہ قسم کے پاپڑ بیلنے سے فرصت ملے تو فلسطینی بہنوں کے خون میں لتھڑے آنچل بھی دیکھ لیجیے، کرسی کرسی کی مالا جپنے سے اگر تھوڑی سی فراغت مل جائے تو مسجدِ اقصیٰ کے فرش پر بکھرے قرآن مجید کے نسخوں پر ایک نظر ڈال لیجیے، اگر اپنی ساری توانائیاں مخالف سیاسی جماعت کی سرکوبی کرنے سے خفیف سا وقت بھی نصیب ہو تو فلسطینی بہنوں کی آہ و بکا پر بھی کان دھر لیں، اگر ریاستِ مدینہ اور جدید و قدیم پاکستان کے قیام کے بلند بانگ دعووں سے کچھ توقف ملے تو چیختی چلاتی فلسطینی ماؤں کے کرب و ملال کا کچھ ادراک ہی کر لیجیے، اگر اپنے اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو، لٹیرے اور غدار جیسے غیر جمہوری، غیر مہذب اور اخلاق باختہ القابات سے پکارنے میں کچھ وقفہ ملے تو اہلِ فلسطین پر ڈاکا مارنے والے اسرائیلی یہودیوں کو بھی چور اور ڈاکو یا اِن سے مماثل اور مترادف الفاظ کہنے کی جراَت کا مظاہرہ کر کے بھی دِکھا دیجیے، وہی سفاک یہودی جنھوں نے 1948 ء میں ایک عرب ریاست پر ڈاکا مار کر اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تھا، پاکستان میں باہم ایک دوسرے کو ڈاکو، لٹیرے اور غدار سمجھنے والے سیاسی سورما، اسرائیل کے متعلق بھی ایسی ہی لب کشائی کرنے کا کچھ تو حوصلہ پیدا کریں، وہ کون سا ظلم ہے جو اہلِ فلسطین پر روا نہیں رکھا جا رہا؟ کسی ستم زدہ کو اپنے ہی گھر سے بے دخل کر کے اس کے وجود کو لہولہان کر دیا جائے تو اس کے دل کو کیسے کیسے موذی اور مہلک درد و الم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ اسی شخص کو ہو سکتا ہے جس کا گھر بار سب کچھ ہی لٹ گیا ہو۔1948 ء کی وہ اداس اور مہیب شامیں آج تک اہلِ فلسطین کی نسل کے خون میں رینگتی ہیں جب مظلوم و مقہور لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے ہی مُلک میں اپنی جانیں بچانے کے لیے اپنے گھروں سے نکلنا پڑا تھا۔وہ ایک بہت بڑی تباہی تھی جسے آج بھی فلسطینی مسلمان ” النکبہ “ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔1967 ء میں ایک بار پھر خون ریز تباہی فلسطینیوں پر مسلّط کی گئی، سفاک صہیونی فوج نے مشرقی بیت المقدس، غرب اردن، شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور آبنائے سینا پر تسلّط قائم کر لیا تھا۔21 اگست 1969 ء کو ایک یہودی ڈینس مائیکل نے قبلہ ء اوّل کو آگ لگا دی تھی۔یہودی آج بھی مختلف وقفوں سے مسجدِ اقصیٰ کا تقدّس پامال کر رہے ہیں۔
کیا آپ نے دنیا کا سب سے مظلوم قیدی بھی دیکھا ہے، اگر نہیں تو چھیاسٹھ سالہ فلسطینی راہ نما نائل البرغوثی کو دیکھ لیجیے، یہ پڑھ کر آپ کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے کہ وہ گذشتہ 43 سالوں سے اسرائیل کی قید میں ہے، اس کے اہلِ خانہ، حتیٰ کہ اس کے وکیل کو بھی اس سے ملنے کی اجازت نہیں۔43 سالہ قید و بند کی صعوبتوں کا ادراک کرنا بھی ہمارے لیے محال ہے، مگر نائل البرغوثی کی عظمت اور استقامت کو سلام کہ آج تک بڑے طنطنے کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہے۔
اپنے گھروں سے نکالے گئے اہلِ فلسطین کے درد بڑے گہرے ہیں، انھیں أج تک واپس اپنے گھروں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔امریکا آج بھی اسرائیل کے ڈولے مضبوط کرنے میں لگا ہُوا ہے۔اسرائیل کی سفاکانہ پالیسیوں نے فلسطینی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، سخت قدغنوں کے حصار میں مظلوم فلسطینیوں کا سانس لینا تک دشوار ہو چکا ہے۔محمد ایوب بسمل کا مسجدِ اقصیٰ کے متعلق شعر ہے۔
کفر ہے برسرِ پیکار یہاں برسوں سے
گرم ہے ظلم کا بازار یہاں برسوں سے
قبلہ اوّل ہمارا مان ہے، وہاں کی پُرنور فضائیں ہمارا فخر ہیں، گنبدِ صخرہ، ملتِ اسلامیہ کا عظیم سرمایہ ہے، زخم خوردہ قبلہ ء اوّل کی توقیر اور تقدیس ہماری شریانوں میں دوڑتی ہے۔آج مسجدِ اقصیٰ کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی، آج خون میں نہائی فلسطینی بہنوں کی بے چارگی پر دل میں ہوک اٹھتی ہے، ان بہنوں کی چادریں چھین لی گئیں، ان کی عزتیں نوچ لی گئیں۔اہلِ فلسطین کے لرزیدہ بدن ہماری آنکھوں کو لرزا جاتے ہیں۔وہ عرب کے عیش کوش اور مادیت پسندی کے خوگر حکمران ہوں یا ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہمارے سیاست دان، سب مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں، یہ سب بیت المقدس کے خطا کار ہیں، اس لیے کہ یہ سب قبلہ ء اوّل کو فراموش کر چکے ہیں۔اقتدار کے ندیدے، کرسی کے حریص یہ لوگ حکومت کے حصول کے لیے ہر اوچھی حرکت کیے جا رہے ہیں اور عوام الناس پر بھی حیرت ہے کہ ان کے لیے گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے میں مست ہیں۔ایک صدی ہونے کو آئی، غم و اندوہ سے برسرِ پیکار قبلہ اوّل، کسی صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کا منتظر ہے، صہیونیت کی سفاکیت سے اٹے بیت المقدس کی نگاہیں کسی عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے جانشین کو تلاش رہی ہیں، شاید کہ خوابیدہ ضمیروں میں حمیت نام کی کوئی جنبش یا رمق پیدا ہو جائے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ جبر و جور کی تاریکیاں جتنی بھی گہری ہو جائیں، ظلم و استبداد پر مشتمل تیرہ شبی جتنی بھی طویل ہو جائے، یہ آزادی کی لگن کو کبھی زیر کر سکتی ہے نہ دبا سکتی ہے، اگر یقین نہ آئے تو 43 برسوں سے قید، نائل البرغوثی کی چٹان سے مضبوط جراَت اور کسی کوہِ گراں سے بھاری بھرکم استقامت کو دیکھ لیجیے!