سوال

مدارس كو زکاۃ دینے کا کیا حکم ہے؟ اگر جائز ہے تو یہ زکاۃ کے مصارف ثمانیہ میں سے کس میں شمار ہوگا؟
نیز آپ حضرات کا فتوی ہے کہ زکاۃ کے پیسوں سے راشن کی تقسیم اور افطاری وغیرہ کروانا جائز نہیں، تو کیا مدارس کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ طلبہ مدارس کے کھانے پینے، سحر و افطار اور دیگر ضروریات کو زکاۃ کی مد سے پورا نہیں کیا جاسکتا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس سوال کا جواب درج ذیل نکات کی شکل میں پیشِ خدمت ہے:
1۔ کیا مدارس کو زکاۃ دینا جائز ہے؟
قرآن کریم میں زکاۃ کے مصارف کو درج ذیل آیت میں بیان کیا گیا ہے:

“إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ”. [التوبة:60]

’صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے‘۔
یہ کل آٹھ مصارف ہیں۔
رہائشی مدارس میں چونکہ اکثر تعداد ایسے طلبہ کی ہوتی ہے، جو کہ فقراء و مساکین اور مسافروں کے ضمن میں آتی ہے، اس وجہ سے مدرسے کو زکاۃ دینا بالکل جائز ہے۔
2۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ افطاری و سحری وغیرہ زکاۃ کے پیسوں سے نہیں کروائی جاسکتی تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ زکوۃ غرباء اور مساکین کو دینا اور انہیں اس کا مالک بنانا ضروری ہے، محض افطاری کروانے یا راشن دے دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی۔ کیونکہ آیتِ زکاۃ:

(اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِينِ …)

میں ’لام‘ تملیک کے لیے ہے، یعنی جو رقم زکوۃ کی نکالیں اس رقم کا مستحقین کو مالک بنائیں، پھر ان کی مرضی ہے ،وہ افطاری کریں یا جہاں چاہیں اس کو خرچ کریں۔ [مجموع الفتاوى لابن تيمية:25/88]
3۔ جہاں تک بات ہے مدارس میں کھانے پینے اور سحر و افطار اور دیگر ضروریات کے لیے زکاۃ کی رقم خرچ کرنا، تو یہ جائز ہے، جس کی توجیہ یہ ہے کہ زکاۃ کی ادائیگی میں کسی کو وکیل بنانا جائز ہے، جیساکہ کئی ایک اہلِ علم نے اس کی صراحت کی ہے۔ [المجموع للنووي: 6/138، الانصاف للمرداوي: 3/197]
چنانچہ مدارس کے مہتممین اور ناظمین حضرات کو جب زکاۃ کی رقم ادا کردی جاتی ہے، تو وہ بطور وکیل، اس میں تصرف کے اہل ہوجاتے ہیں۔ لہذا انہیں یہ اختیار حاصل ہے، بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے مدرسہ کی ضروریات وغیرہ پر خرچ کریں۔ وہ تنخواہوں اور وظائف کی شکل میں ہو، یا غذائی ضروریات ہوں، یا پھر تعمیر وغیرہ معاملات ہوں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ