سوشل میڈیا پر ایک ڈانس کی ویڈیو بہت وائرل ہوئی تھی جو عائشہ نامی لڑکی کی وڈیو ہے جس کے بعد وہ لڑکی سوشل میڈیا پر موضوع بحث رہی، میں نے وہ ویڈیو نہیں دیکھی البتہ اپنے کسی کام کی غرض سے سوشل میڈیا کے استعمال پر نا چاہتے ہویے وہ ویڈیو سامنے سے گزری جس کا یہ ایک جملہ یاد ہے۔
اب بعض احباب اس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں اور بعض احباب اس پر نقد کرتے نظر آتے ہیں ،ویسے یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں جسے موضوع بحث بنایا جائے کیونکہ اسطرح کے کئی ٹرینڈ آئے روز سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں جس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا بعید از قیاس نہیں ہے کہ ہم مکمل طور پر اپنی اسلامی اقدار و ثقافتی روایات سے دور ہو چکے ہیں میں اس بارے چند مجمل گذارشات کروں گا تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ حقیقت میں ہم کدھر کھڑے ہیں، ایک بنیادی بات ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اس نے کچھ ایسے مسلم اصول دہے ہیں جو انسانی زندگی کے رہنما اصول وضوابط ہیں،ان اصولوں پر عمل درآمد کرتے رہنے سے ہماری نجات پنہاں ہے۔
میں یہ بات ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اسلام نے جو ہمیں رہنما اصول وضوابط دیے ہیں ان کی وجہ سے ہی ہم دیگر ادیان باطلہ سے جدا گانہ مقام رکھتے ہیں اور یہ مقام قیامت کے دن تک قائم رہے گا۔
اگر ہم ان رہنما اصول وضوابط کو پس پشت ڈال کر اپنی من مانیوں میں مگہن رہیں گے تو پھر معاشرے میں آئے دن جو جرائم بڑھ رہے ہیں اور اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے وہ انہی من مانیوں کے مرہون منت ہے۔

ان پرنسپلز کا میں قائل و فاعل ہوں اور وقتاََ فوقتاً ان بارے ترغیب دلانے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ ہم صراط مستقیم والے روڈ میپ پر گامزن رہیں ، بڑے اختصار سے ان مسلم اصولوں میں سے چند کو بیان کر کے اپنا مدعی واضح کرنے کی کوشش کروں گا ان شاءاللہ

1) اسلام میں موسیقی کا حکم

موسیقی، گانا بجانا اور سننا شریعت میں حرام ہے، قرآن کریم میں ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ
[سورہ لقمان : 6 ]
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان باتوں کے خریدار بنتے ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تاکہ اللہ کی یاد سے بے سمجھے گم راہ کرے اور اس کی ہنسی اڑائے ، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

احادیث:
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ “لهو الحدیث”سے مراد گانا ہے،

یہی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت جابر رضی اللہ عنہم ، حضرت عکرمہ، سعید بن جبیر، مجاہد ، مکحول،حسن بصری اورعمرو بن شعیب رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر حضرات سے منقول ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گانا دل میں نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔

حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں ایک جگہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جارہا تھا، انہوں نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور راستے سے ایک طرف ہوکر چلنے لگے، دور ہوجانے کے بعد مجھ سے کہا :
اے نافع کیا تم کچھ سن رہے ہو؟ میں نے کہا : نہیں، انہوں نے کان سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جارہا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بانسری کی آواز سنی اور ایسے ہی کیا جیسا میں نے کیا۔ان قرآن وحدیث کے دلائل سے یہ بات واضح ہوئی کہ موسیقی حرام ہے۔

موسیقی کے بارے میں ائمہ اربعہ رحمہ اللہ کا موقف:
ائمہ اربعہ اس بات پر متفق ہیں کہ گانے گانا اور موسیقی سننا حرام ہے اور جو شخص گانے سنتا اور گاتاہوگاوہ فاسق وفاجر ہے۔

١) امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
امام صاحب کے مقلدین نے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے کہ گانے سننا فسق ہے اور گانوں کے ذریعے لذت حاصل کرنا کفر ہے امام ابو حنیفہ کے سب سے بڑے شاگرد امام ابو یوسف رحمہ اللہ جو ہارون الرشیدکے زمانےمیں قاضی القضاۃ تھے وہ کہتے ہیں اگر میں کسی گھر کے پاس سے گذرتا اور گانوں کی آواز سن لیتا تو بغیر اجازت کے گھر میں داخل ہوجاتا اور گھر والوں کو منع کرتا کیونکہ برائی سے روکنا واجب ہے اور گانے سننا بھی ایک برائی ہے۔
انہوں نے حکم دیا تھا کہ ملک میں ذمی لوگوں کو ساز وآلات موسیقی اور ڈھول سے منع کیا جائے۔

٢) امام مالک رحمہ اللہ
امام صاحب سے گانوں کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا:
’’انمایفعلہ الفساق عندنا‘‘
’’میرے ہاں (مدینہ منورہ میں) یہ کام صرف اور صرف فاسق لوگ ہی کرتے ہیں‘‘
اور القاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
’’الغناء باطل والباطل فی النار‘‘
’’گانا باطل ہے اور باطل جہنم میں ہے‘‘

٣) امام شافعی رحمہ اللہ
امام موصوف جب بغداد سے مصر کی طرف گئے تو انہوں نے کہا میں بغداد سے نکل آیا ہوں اور اپنے پیچھے ایک چیز چھوڑکر جارہاہوں جسے چند زندیقوں نے اس لیے ایجاد کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کو قرآن سے دور کرنا چاہتے ہیں وہ اس کا نام ’’تغبیر‘‘ رکھتے ہیں اور ’’تغبیر‘‘ موسیقی کا ایک آلہ تھا۔

٤) امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام صاحب کے صاحبزادے عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی سے گانے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا مجھے اچھا نہیں لگتا اور گانا دل میں نفاق کو اگاتا ہے۔جیسا کہ پانی سبزی کو اگاتاہے۔اس سے ثابت ہوا کہ چاروں ائمہ کرام کے نزدیک بھی گانا بجانا اور گانے سننا حرام ہے،

اب موسیقی کی مختلف جہات کو ذکر کر دیتا ہوں تاکہ مسئلہ مزید واضح ہو جائے۔
١) وہ موسیقی جس میں کوئی اخلاقی قباحت جیسے شرک، بے حیائی یا اس قسم کی کوئی اور چیز پائی جائے۔ اس کے حرام ہونے پر سب علماء کا اتفاق ہے۔ موجودہ دور کی 90 فیصد موسیقی اسی قسم کی ہے۔

٢) وہ موسیقی جس میں کوئی اخلاقی قباحت نہ ہو اور نہ ہی سازوں کا استعمال ہو۔
اس کے جواز کے تمام علماء قائل ہیں۔

٣) وہ موسیقی جس میں کوئی اخلاقی قباحت نہ ہو مگر سازوں کا استعمال کیا جائے۔ اس کے بارے میں قدیم و جدید علماء کے مابین اختلاف رائے ہے۔
بعض کے نزدیک یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک سازوں کے استعمال کے باعث ناجائز۔
دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔راجح بات یہی ہے کہ سازوں کے استعمال کے ساتھ ناجائز ہے۔

موسیقی اور گانوں کے نقصانات:
ویسے موسیقی اور گانوں کے نقصانات بہت سارے ہیں لیکن میں ان میں سے دو کا تذکرہ اہم ہے۔

١) موسیقی سے نفاق پیدا ہوتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں’’
الْغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ فِي الْقَلْبِ كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ
(السنن الكبرى للبيهقي (10/ 377)

’’گانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے کہ جیسے پانی کھتی باڑی کو پیدا کرتاہے‘‘

٢) موسیقی اللہ کے دین سے دور کرتی ہے
کیونکہ موسیقی کی آواز شیطانی آواز ہے یقینی طور پر یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ شیطانی آوازیں سُن سُن کر شیطان ان پر غالب آچکا ہے اوراس نے انہیں رب العزت کے دین سے بالکل غافل کردیا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللّٰہِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ
(المجادلة: 19)

’’شیطان ان پر مسلط ہوگیا ہے اور اس نے انہیں اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے یہی لوگ شیطان کی پارٹی ہیں، تحقیق شیطان کی پارٹی کے لوگ ہی خسارہ پانے والے ہیں۔

اسلام کے اس مسلم اصول سے ہمیں یہ بات واضح ہوئی کہ ہم دانستہ و نادانستہ طور پر ایک ایسے گناہ کی وادی میں غوطہ زن ہیں جس بارے اسلام نے ہمیں یہ بتا رکھا ہے کہ یہ وادی آپکو اپنی جس لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اس سے ہم جسمانی طور پر سستی وکاہلی کا شکار ہو رہے ہیں اور روحانی طور پر ہم مردہ ضمیر ہو رہے جس کا ایک واضح نقصان یہ ہوا کہ آج ہم نیکی وبرائی میں فرق کی تمیز کھو چکے ہیں۔
اگر آج ہم اس بات کا عہد و پیمان کر لیں کہ شریعت نے جو اصول بتایا گیا ہے اسی کے مطابق ہم اپنی زندگی بسر کریں گے تو معاشرے میں بڑھتی ہیجانی کیفیت ختم ہو جائے گی اور روحانی طور پر ہم تعلق باللہ کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے ان شاء اللہ۔

2) مرد و عورت اور حیاء

حیاء کا وہی تصور حقیقی ہے جو اسلام نے بیان کیا ہے اور جب تک اہل اسلام نے اس بنیادی پرنسپل کو اپنی زندگیوں میں قائم رکھا ہے تب تک اسلام کو عروج بھی تھا اور اہل اسلام دیگر اقوام پر غالب بھی تھے لیکن جیسے جیسے وقت کی جلدی نے ہمیں ہمارے بنیادی مقصد سے دور کیا اور ہم خود کو ترقی یافتہ ماننے لگے تو پھر ہمارے قلوب و اذہان اور نصابات میں حیاء کے متعلق تصورات تبدیل ہونے لگے اس تبدیلی میں ہم نے اتنی جدت پسندی کا مظاہرہ کیا کہ آج والدین سے لیکر اساتذہ تک حیران و پریشاں ہیں کہ قوم کا مستقبل کن راہوں کا راہی بن چکا ہے،
وجہ یہی ہے کہ اللہ نے انسان کو فطرت اسلام پر پیدا کیا ہے اور انسان جیسے جیسے فطرت سے دور ہوا تو تنزلی کا شکار ہوتا گیا اور من حیث القوم آج ہماری حالت کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
اسلام نے مرد وعورت کو یکساں حیاء کا درس دیا ہے کیونکہ جہاں عورت کو مکمل ڈھانپنے کا حکم دیا ساتھ ہی مرد کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم صادر کر دیا تاکہ حیاء کے معیار میں بیلنس رہے۔

پھر اللہ رب العزت نے عورت کا مسکن گھر بنایا ہے اور حتی کہ نماز جیسا اہم فریضہ جس کی کسی حالت میں معافی نہیں اس کو ادا کرنے کا حکم بھی گھر میں دیا اور اسی کو افضل عمل کہا ہے۔ لیکن تعلیم و تربیت کے لیے عورت کو گھر سے باہر مع محرم جانے کی اجازت بھی دے رکھی ہے کیونکہ کل کو اس نے ماں بننا ہے اور اپنے اہل وعیال کی مجموعی طور تربیت اور حقوق کی پاسداری کرنی ہے۔لیکن ہماری سوچوں میں جدت پسندی آئی تو ہم نے عورت کو یہ باور کرایا کہ اس کا اصل مسکن گھر نہیں بلکہ سوشل میڈیا اور بازار و ماکیٹ ہے اور پھر جب سے عورت نے اس مغربی ایجنڈے کو پروان چڑھانے میں عملی طور اقدامات کیے ہیں تب سے عورت کی عزت محفوظ ہے نہ چار دیواری محفوظ ہے بلکہ ہوا کیا ہے کہ عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جانے لگا۔ اب نوبت یہ آگئی ہے کہ عورت کے تن بدن پر جو تھوڑا بہت لباس نظر آتا ہے یہ بھی اترنے کا وقت قریب ہوا چاہتا ہے۔
اور سوشل میڈیا پر جتنی بہودہ ایپس ہیں وہاں عورت کو آزاد خیالی کے نام پر نچا بھی دیا ہے، پھر ستم ظریفی دیکھیے کہ اس کی تشہیر میں ہم پیش پیش ہیں۔
اب آئے روز سوشل میڈیا پر کبھی کوئی شگوفہ چھوڑا جاتا ہے تو کبھی اسکول وکالج میں ڈانس کنسرٹ منعقد ہو جاتا ہے،سوال یہ ہے ہم اسلام کی ان مسلم اقدار کو پس پشت ڈال کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟
کیا ان تماشوں سے کوئی تعلیمی شعور پیدا ہو رہا ہے یا ہم تعلیمی مقاصد سے دود ہو رہے ہیں ؟
ہم کب تک یونہی بے راہ روی کا شکار بنتے رہیں گے ؟
ہم کب تک عورت جیسی مقدس شخصیت کو ابن آدام کی حرص و ہوس کا شکار بننے کے لیے مواقع فراہم کرتے رہیں گے ؟
آج یہی حالت اس سوشل میڈیا پر وائرل گانے کی ہے کہ اس عورت کے اس عمل کو اسقدر بنا سنوار کے پیش کیا گیا ہے۔ جیسے یہ کوئی قابل تقلید عمل ہو لیکن جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے اسلام کی کئی بنیادی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں لیکن ہم من حیث القوم اس پر بجائے اصلاحی نقد کرنے کے الٹا تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ پھر کئی ایسے پڑھے لکھے دانشور ہیں جو اس طرح کے کاموں کے دفاع میں یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ یہ ٹیلنٹ اور ایک فن ہے تو ان کی خدمت عالیہ میں یہ عرض کیے دینا چاہتا ہوں کہ ہر ایسا ٹیلنٹ اور فن جو اسلام کی بنیادی اقدار کے خلاف ہو اور اسلام کے مسلم اصولوں کے روگردانی کا تصور پیش کرے وہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

3)وقت کی قدر واہمیت
جیسا کہ میں اوپر تمہیدی کلمات میں اس بات کی وضاحت کر چکا ہوں کہ اسلام بہت عمدہ اور پاکیزہ دین ہے اسی دین نے ہمیں اپنے اوقات کو قیمتی بنانے کا کہا ہے لیکن
آج ہم من حیث القوم اسقدر وقت ضائع کرتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا جیسے ہم نے اس دنیا میں صدیوں جینا ہو لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس کے باوجود ہمارے شب و روز ان کاموں میں گزر رہے ہیں، جن کا کوئی دنیاوی مقصد نہ دینی فائدہ ہے بس وقتی طور پر مستیاں ہیں جن سے لطف اندوز ہو لیتے ہیں اور یہ حالت یونیورسل ہو چکی ہے۔ لیکن ہم تو مسلمان ہیں ہم قرآن کو ماننے والے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ رکھا ہے انہوں ہم یہ بتایا ہے کہ ایک مسلم ومومن کا وقت تو نہایت قیمتی ہوتا ہے وہ اپنے ایک ایک لمحے کو ان کاموں میں صرف کرتا ہے جن کا اس کو دنیا میں نفع ہوتا ہے اور اس سے انسان کی آخرت بھی بہتر ہوتی ہے ۔اج ہم جن مقدس شخصیات اور گزرے قومی ہیروں کی باتیں کتب نصاب میں پڑھتے ہیں ان کی زندگیوں میں اسلام کے یہ مسلم اصول وضوابط لاگو تھے۔ وہ وقت کے قدردان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کم عمری میں بھی وہ وہ کارنامے سر انجام دیے تھے، جن کو دیکھ کر اور پڑھ کر آج کے دور کے ذی شعور رشک کرتے ہیں،
جب من قوم کو اجتماعی طورپر وقت کی بے توقیری کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صدیوں پہلے کہا فرمان یاد آتا ہے،

حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
“دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔‘‘
(صحیح البخاری 6049)

اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور ان کو کبھی زوال نہیں آنا حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ جو رب کائنات ان عظیم نعمتوں سے نوازنے والا ہے وہ ان کو کسی وقت بھی چھین سکتا ہے لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔
وقت کی بے قدری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سوشل میڈیا پر ہر طرف اسی گانے کی گونج ہے اور مغربی ایجنڈے کو پروان چڑھانے والا میڈیا بھی اس فحش ڈانسر کو ایسے پرموشن دے رہا ہے۔ جیسے اس نے پتا نہیں کونسا میدان فتح کر لیا ، اور اسے نیشنل ٹی وی چینلز پر مدعو کیا جا رہا ہے اور حد تو اس بات کی ہے کہ لوگ اسے اس بات پر مدعو کر رہے ہیں فحش حرکات و سکنات پر مبنی ڈانس ہمیں بھی سکھایا جائے۔
ہم کتنا گریں گے اور کب تک گرتے رہیں گے!؟
اتنا ہی کہوں گا کہ ہمیں اپنی زندگی کی قدر کرتے ہوئے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری ہر آنے والی ساعت، گزری ہوئی ساعت سے بہتر ہو۔
اس طرح ساعتوں کی بہتری سے منٹ بہتر ہوں گے اور منٹوں کے بہتر ہونے سے گھنٹے بہتر ہوں گے اور گھنٹوں کے بہتر ہونے سے دن بہتر ہوں گے اور دنوں کے بہتر ہونے سے ہفتے بہتر ہوں گے اور ہفتوں کے بہتر ہونے سے مہینے بہتر ہوں گے اور مہینوں کے بہتر ہونے سے سال بہتر ہوں گے، یوں ہماری زندگی کی ہر گھڑی خیر و فلاح پر مبنی گزرے گی اور ہم کچھ ایسا کر بھی پائیں گے کہ ہمارے جانے کے بعد بھی وہ کام ہماری قبر میں سکون وراحت کا ذریعہ بن جائیں گے اور تاریخ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد رکھے گی۔۔

4) نیکی کے کاموں میں تعاون اور برائی کے کاموں سے کنارہ کشی

اسلام کا یہ ایک بنیادی اصول بھی ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قاعدہ کی تلقین کرتا ہے حتی کے اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے دیگر اقوام سے اس بات کا فرق بیان کیا ہے یہ امت نیکی کے کاموں کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے
اس سے جڑا مسئلہ نیکی کے کاموں میں تعاون اور برائی سے روکنا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ کام الٹ ہو رہا ہے وہ اسطرح کہ معاشرے میں برائی کو بڑی شان وشوکت سے منایا جاتا اسے آگے بیان کیا جاتا ہے کئی احباب اسے آگے سوشل میڈیا پر شیئر بھی کرتے ہیں جبکہ نیکی کے کاموں میں تعاون سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں، جیسا کہ حالیہ سوشل میڈیا پر چلنے والا یہ بہودہ ڈانس اور اس سے جڑے پراگندہ عناصر ہیں جبکہ ہمیں باہمی تعاون کے تعلق سے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ تعاون ہمیشہ اچھائی بھلائی اور نیکی کے کاموں میں ہو۔
ظلم و زیادتی،فتنہ و فساد اور معاشرے میں فساد کے اسباب بننے والے کاموں میں کبھی بھی تعاون نہ کیا جائے۔
وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَان وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے ۔

یہی وجہ ہے باہمی نیک تعاون صالح معاشرہ کی تشکیل اور قیام امن وسلامتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
کہنے کو اور بہت کچھ ہے لیکن اسلام کے ان چار بنیادی پرنسپلز کو اگر ہم سمجھ لیں اور اپنی زندگیوں میں لاگو کر لیں تو یہ بات بعید نہیں کہ معاشرے میں نیک سوچیں پروان چڑھنے لگیں گی ،لوگ اپنے اوقات کو قیمتی بنانے میں سنجیدگی ظاہر کرنے لگیں گے اور اسلام نے جن امور بارے حرام وناجائز کا فتویٰ دے رکھا ہے اس میں ہمارے جسمانی وروحانی فوائد مضمر ہیں بس فرق یہ ہے کہ کچھ عقل ودانش افراد ان مضمر حکمتوں کو کشید کر زندگیوں میں بہتری کے آتے ہیں اور اخلاقیات کو اعلی بنا کر رب کے محبوب بندے بن کر زندگی بسر کرنے لگتے ہیں اور کئی دانستہ و نادانستہ طور پر ان حکمتوں سے اپنی من مانیوں کی وجہ سے محروم رہی جاتے ہیں۔
اس لیے میرا تعلیمی اداروں سے وابستگی رکھنے والے طلباء وطالبات سے بڑے ادب سے گزارش ہے کہ ابھی وقت ہے سنبھل جائیں ورنہ زندگی بھر بچھتاوا رہے گا کہ کاش وقت کو قیمتی بنا لیا ہوتا ،اور میری تعلیمی اداروں کے سربراہان سے بھی گزارش ہے کہ براہ کرم آپ ملک کے مستقبل بچوں کو شعوری تعلیم اور اخلاقیات سکھائیں یہ آئے روز کبھی ڈانس کنسرٹ منعقد ہو رہا ہے تو کبھی فیشن شو منعقد ہو رہے ہیں ان کو تعلیمی اداروں سے دور رکھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج قوم کے جواں بیٹے بیٹیوں کی زبان پر یہ گانا ہے
اس سرعت سے گزرتے دور میں بھی اگر ہم خود کو بہتری کی طرف نہ لا سکے اور کچھ سیکھ نہ سکے تو پھر معاشرے کی اصلاح ناممکنات میں سے ہو جائے گی اور ہم خود کو مسلمان کہلوانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے.

کامران الہیٰ ظہیر