مَیں جس سے مَحبّت کرتا ہوں، پھر واقعی اُس سے مَحبّت کرتا ہوں، اُسے اپنے دل کی گہرائیوں میں بسا لیتا ہوں، اپنے انگ انگ کو اُس کی چاہت کا اسیر بنا لیتا ہوں، پھر اُس کی مَحبتّوں کی دل پذیر نکہتیں میرے وجود میں سرایت کر جاتی ہیں اور شاید مَحبّت کرنے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جسے چاہا جائے، اُسے چاہنے کا حق ادا کیا جائے۔مَیں ہمیشہ دوستوں کو کہتا ہوں کہ مَحبّت ہمیشہ سو فی صد ہوتی ہے، یہ کبھی ننانوے فی صد یا اِس سے کم نہیں ہوتی۔اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے کسی شخص سے ننانوے فی صد مَحبّت ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے، اس لیے کہ مَحبّت میں فقط دو ہی صورتیں ہُوا کرتی ہیں، یعنی مَحبّت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی اور جب یہ ہوتی ہے تو کبھی سو فی سے کم نہیں ہوتی۔مَیں جب گھر میں ہوتا ہوں تو میرا اکثر وقت اپنی چھوٹی سی بیٹھک میں گزرتا ہے، بعض اوقات تو دوستوں کی ایک ایسی محفل جم جاتی ہے کہ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں رہتا اور رات کا طویل حصّہ بِیت جاتا ہے۔میرا زیادہ وقت بیٹھک میں گزرتا ہے، سو مجھے اپنی بیٹھک سے بڑی مَحبّت ہے، مجھے اِس سے بڑا انس ہے، مجھے کیا! میرے دوست احباب کو بھی اِس بیٹھک میں بیٹھ کر سکون اور طمانیت محسوس ہوتی ہے، اب بھی میں اپنی بیٹھک میں موجود ہُوں، باہر تیز چلچلاتی دھوپ ہے، گرم ہَوا جسم و جاں کو جھلسا رہی ہے، بجلی کے چلے جانے سے بھی گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے مگر مجھے حسبِ معمول اپنی بیٹھک میں گرمی کی شدت کا احساس ہے نہ گرم ہَواؤں کے تھپیڑے جسم و جاں کو جھلسا رہے ہیں، اِس کی بڑی وجہ بیٹھک کے ساتھ میری فطری مَحبّت تو ہے ہی، مگر اس کا ایک سبب اور بھی ہے۔بیٹھک میں حبس، گھٹن اور تپش کا احساس نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ اِس کی دو چھتیں بھی ہیں، ایک تو وہی چھت ہے جو ہر کمرے اور گھر میں موجود ہوتی ہے، دوسری چھت پلاسٹر آف پیرس کی ہے۔آج کل اِس طرح کی چھتوں کا عام رواج ہے۔جب سے مَیں نے یہ دوسری چھت لگوائی ہے، بیٹھک میں سکون اور ٹھنڈک محسوس ہونے لگی ہیں۔دو چھتیں تپتے اور سلگتے سورج کی گرمی کو بیٹھک میں آنے سے روکتی ہیں۔
آج جب مَیں اپنی بیٹھک میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، باہر شدید حبس اور گرمی ہے۔سورج آگ برسا رہا ہے، مجھے رہ رہ کر یہ خیال آ رہا ہے کہ حبس زدہ موسموں اور تند و تیز رُتوں میں اگر دو چھتیں ہوں تو سورج کی تیز اور جھلسا دینے والی تپش سے واقعی بچا جا سکتا ہے۔
پی ڈی ایم کی تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی نے دنیا کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا تھا، مُلک بھر کے لوگوں کے مَن میں مسرتوں اور امیدوں کے شگوفے کِھل اٹھے تھے، لوگوں کو یقین ہو چلا تھا کہ پی ٹی آئی کے پونے چار سالہ ” عہدِ انقلاب “ میں 25 کروڑ عوام کو منہگائی کے ظلم و استبداد اور ناانصافیوں کے جبر و جور کی چکّی میں پیسنے والے دن اب گِنے جا چکے ہیں۔اب منہگائی کو یہ کَہ کر دیس نکالا دے دیا جائے گا کہ تُو نے اس ملک کے عوام کے سینے میں بڑی نوکیلی برچھیاں گھونپ دی تھیں، اب ہمیشہ کے لیے دفع ہو جاؤ اور لوگوں کو سُکھ اور چَین کی سانسیں لینے دو۔اُس وقت آس اور امید کی کلیاں یہ سوچ کر اور زیادہ مہک اٹھی تھیں کہ پی ڈی ایم کی تیرہ تجربہ کار سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان کے بھاگ جگا دے گا۔منہگائی کے سفاک سورج کی جھلسا دینے والی دھوپ میں سسکنے اور کراہنے والے لوگوں کو آصف زرداری اور نواز شریف جیسے دو ” عظیم “ سیاسی قائدین کی صورت میں دو چھتوں کا ” راحتِ جاں اور فرحت بخش “ سایہ مل گیا تو لوگوں کو یقین ہو چلا کہ اب لوگوں کے مصائب و آلام کو ختم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
جب ساری دنیا کو گلوبل ویلج کہا جا سکتا ہے تو یہ مُلک میری بیٹھک کی مثل کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہ سارا وطن میری بیٹھک کی طرح ہے، ایک ایسی بیٹھک جس پر کل تک دو بڑی چھتیں سایہ فگن تھیں مگر عوام کو مزید منہگائی کے جہنم میں جھونک کر یہ دونوں چھتیں دھڑام سے گر گئی ہیں۔یہ دونوں چھتیں نہ صرف بُری طرح زمین بوس ہو چکی ہیں بلکہ ایک ایسی نگران حکومت کو بھی مسلط کر گئی ہیں کہ جس کو خاص طور یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ منہگائی اتنی زیادہ کر دو کہ عوام پی ڈی ایم کے ” زریں عہد “ کی منہگائی کے گھاؤ بھول جائیں، پی ڈی ایم نے جتنے وعدے کر کے اقتدار حاصل کیا تھا، ان سے اتنے بُرے طریقے سے انحراف کیا گیا کہ جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔پٹرول کی مسلسل بڑھتی قیمتوں اور اشیائے خورونوش کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کو دیکھ کر میرے گمان کدے میں یہ خیال مجھے بے کل کیے جا رہا کہ جیسے میرے ملک کی دونوں چھتیں گر گئی ہیں۔حیرت ہے کہ اتحاد، اتحاد کے نعرے لگائے جاتے رہے، حالاں کہ کسی عام شخص کو بھی پی ڈی ایم کے لشکر کے دلوں میں اتحاد نام کی کوئی چیز دِکھائی نہ دی۔جب ان سیاسی جماعتوں کی منزل جدا ہیں، جب راستے الگ الگ ہیں، جب سوچ فکر اور خیالات میں بُعد ہے، جب نظریات میں خلیج حائل ہے تو پھر کون سا اتحاد؟ کیسا اتحاد؟ جب میری ” بیٹھک “ میں موجود 25 کروڑ عوام کے وجود منہگائی اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی حدت اور تپش سے سلگتے ہی جا رہے ہیں تو ایسے اتحاد کا کیا فائدہ؟ اتحاد کا نعرہ لگا کر ان گرم موسموں کے ظلم و جبر کو ختم نہیں کیا جا سکا تو ایسے اتحاد کو بھی منحوس ہی کہا جاںا چاہیے اور اب نگران حکومت کے آنے کے بعد تو یہ اتحاد بھی کب کا مٹی کے ڈھیر میں بدل چکا۔
ہاں! یہ سارا مُلک میری ” بیٹھک “ کی طرح ہے، مجھے اس سے شدید مَحبّت ہے، یہ میری چاہتوں کا محور و مرکز ہے، مجھے کہنے دیجیے! کہ یہ وطن میرا عشق ہے، اس کی چاہت، الفت اور عقیدت کے وفور سے میرا انگ انگ مزین اور مرتب ہے۔یہ سچ ہے کہ دونوں چھتوں کے گرنے سے سفاک سورج ہمارے وجود کو مزید جھلسائے جا رہا ہے، ہر شخص بے چَین، مضطرب اور بے کَل ہے اور مَیں اپنی بیٹھک میں سجے پھولوں کو دیکھ کر یہ سوچ رہا ہوں کہ اب ان پھولوں کا کیا بنے گا؟ اب کون اِس وطن کے عوام کو سورج کی حدت سے بچائے گا؟ خدا نخواستہ اگر کوئی بھی منہگائی کی چلچلاتی دھوپ سے عوام کو نہ بچا سکا تب بھی میری ” بیٹھک “ کے ساتھ مَحبّت تو کبھی کم نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ مَیں جس سے مَحبّت کرتا ہوں تو پھر ٹوٹ کر مَحبّت کرتا ہوں۔

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )