سوال (6081)

ایک روایت کے بارے میں بتائیں کہ اس کی صحت کے متعلق محدثین کیا فرماتے ہیں؟
`منبر پر چڑھتے ہی خطیب کا سلام کرنا۔

جواب

منبر پر چڑھتے ہوئے یا منبر پر چڑھ کر سلام کہنا ہر دو اعتبار سے مستحب عمل ہے۔
(1) اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
(2) سلام کی اہمیت وفضیلت اور اس کی ترغیب اس وقت کو بھی شامل ہے کیونکہ سب احادیث عام ہیں۔
مثلا: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

ﺃﻭﻻ ﺃﺩﻟﻜﻢ ﻋﻠﻰ ﺷﻲء ﺇﺫا ﻓﻌﻠﺘﻤﻮﻩ ﺗﺤﺎﺑﺒﺘﻢ؟ ﺃﻓﺸﻮا اﻟﺴﻼﻡ ﺑﻴﻨﻜﻢ،

کیا میں تمہیں ایسی چیز پر خبر نہ دوں جب تم اسے اختیار کرو تو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے لگو (وہ چیز) آپس میں سلام کو پھیلانا اور عام کرنا ہے۔

صحیح مسلم: (54)كتاب الإيمان، ﺑﺎﺏ ﺑﻴﺎﻥ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺪﺧﻞ اﻟﺠﻨﺔ ﺇﻻ اﻟﻤﺆﻣﻨﻮﻥ، ﻭﺃﻥ ﻣﺤﺒﺔ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻣﻦ اﻹﻳﻤﺎﻥ، ﻭﺃﻥ ﺇﻓﺸﺎء اﻟﺴﻼﻡ ﺳﺒﺒﺎ ﻟﺤﺼﻮﻟﻬﺎ،

نبی اکرم ﷺجب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو سب سے پہلا خطاب ان مبارک الفاظ پر مشتمل تھا۔

ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ اﻟﻨﺎﺱ ﺃﻓﺸﻮا اﻟﺴﻼﻡ، ﻭﺃﻃﻌﻤﻮا اﻟﻄﻌﺎﻡ۔۔۔۔۔ ﻭاﻟﻨﺎﺱ ﻧﻴﺎﻡ، ﺗﺪﺧﻠﻮا اﻟﺠﻨﺔ ﺑﺴﻼﻡ،

اے لوگو سلام کو پھیلاؤ، (ایک دوسرے اور فقراء ومساکین کو)کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو۔
اور رات کی نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوے ہوں تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
سنن ابن ماجہ: (3251)، سنن ترمذی:(2485)، مسند أحمد بن حنبل:(23784) صحیح
امام نافع نے کہا:

ﺃﻥ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻛﺎﻥ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ﺃﻓﺸﻮا اﻟﺴﻼﻡ، ﻭﺃﻃﻌﻤﻮا اﻟﻄﻌﺎﻡ، ﻭﻛﻮﻧﻮا ﺇﺧﻮاﻧﺎ ﻛﻤﺎ ﺃﻣﺮﻛﻢ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ، مسند أحمد بن حنبل:(6450) صحیح

اس کے علاوہ سلام کی اہمیت وترغیب اور سلام کے آداب واحکام بارے احادیث صحیحہ و کثیرہ بھی اس پر دلالت کرتی ہیں تو جب سلام کی ترغیب وتعلیم مطلقا دی گئ ہے تو اس بارے روک، ٹوک درست نہیں بلکہ اس موقع پر سلام کہنے کا عمل اختیار کرنا باعث خیر وبرکت ہے۔
اور اس بارے میں مرفوع روایات ثابت نہیں ہیں اور سنن ابن ماجہ والی حدیث جابر کو امام العلل أبو حاتم الرازی نے موضوع کہا ہے۔
امام ابن أبی حاتم الرازی نے کہا:

ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻲ: ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻮﺿﻮﻉ، علل الحديث لابن أبي حاتم الرازى: 2/ 559(590)

البتہ موقوفا یہ عمل ثابت ہے۔
ملاحظہ کریں:

عن أبي نضرة قال: كان عثمان قد كبر فإذا سعد المنبر سلم فأطال قدر ما يقرأ إنسان أم الكتاب، مصنف ابن أبي شيبة: (5302) صحيح

اسی طرح امیر المومنین سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمة الله عليه سے بھی ثابت ہے۔
عمرو بن مہاجر کہتے ہیں:

أن عمر بن عبد العريز كان إذا استوى على المنبر سلم على الناس وردوا عليه،

کہ عمر بن عبدالعزیز رحمة الله عليه جب منبر پر چڑھتے تو سلام کہتے اور لوگ ان پر جواب لوٹاتے۔
مصنف ابن أبي شيبة: (5303)حسن لذاتہ۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اس کے سنت ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، حدیث سے ثابت ہے، ابن ماجہ اور مغنی ابن قدامہ دیکھ لیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ