جیون کا اک اور سنہرا سال گیا

[مولانا عبد القدیر شاہین کے تذکرے کے ساتھ]

یادوں کا ایک غول ہوتا ہے، جو سال کے آخری ایام اور اختتامی لمحات میں دَرِ دل پر دستک دے کر آنکھیں نم کر دیتا ہے، ہم لب کشائی کریں یا نہ کریں، گزرے شب و روز ہمیں لوگوں کے رُوکھے رویّوں کے متعلق بہت کچھ سبق سِکھا جاتے ہیں۔آپ ماضی کے کسی ایک جھروکے میں بھی جھانک کر دیکھیں گے تو دشتِ حیات میں وفاؤں کے کنول کی بجائے دھوکے اور فریب کے عارضے اُگے دِکھائی دیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مہر و مروّت معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔مصروفیت کے اِس عہد میں وفاؤں کی فرصت بھلا کس کے پاس ہے؟ سب سے تلخ اذیتیں اس شخص کو برداشت کرنا پڑتی ہیں، جس نے کسی جان سے پیارے شخص کو وفا کی دودھیا کرنوں میں نہلا دیا ہو اور بدلے میں اسے جور و جفا کی تیرگیوں میں جھونک دیا جائے۔پژمردہ رشتوں میں گِھرے انسان کو دُور دُور تک خلوص اور خالص مَحبّت نظر نہیں آتی، جو بھی شخص زندگی میں آتا ہے، درد ہی دے کر جاتا ہے۔توصیف تبسّم کا شعر ہے۔
کون سے دکھ کو پلّے باندھیں کس غم کو تحریر کریں
یاں تو درد سوا ہوتا ہے اور بھی عرضِ حال کے بعد
اکثر لوگ نا شُکرے ہی تو ہیں، انسانوں کے ساتھ ساتھ اپنے پروردگار کے بھی۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اللہ ربّ العزّت نے سورہ العادیات کی آیت 6 میں بیان فرمائی ہے کہ ” بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ہی نا شُکرا ہے “
اپنے اعزّہ و اقربا سے بے وفائی کے شکوہ کناں ہم لوگ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو سہی کہ ہمارے رب نے ہم پر کتنے انعامات اور احسانات کی یورش کر رکھی ہے، کیا اس رب العزّت کے ساتھ ہم نے کبھی وفا کرنے کی کوشش کی ہے؟ ہم اربوں نوری سالوں کے فاصلوں پر کہکشانوں کو کھوجنے میں مگن ہیں مگر شاہ رگ سے زیادہ قریب اللہ تعالیٰ کی مَحبّت کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ہمارے گمان کدے کے کسی نہ کسی گوشے اور کونے میں یہ حقیقت بھی موجود ہوتی ہے کہ بالآخر ہم نے مرنا ہے اور اسی ذاتِ باری تعالٰی کے سامنے حاضر ہونا ہے، مگر ہمارے تخیّل میں یہ بات بھی واثق ہو چکی ہے کہ ہمیں ابھی موت نہیں آئے گی۔فکر کی اسی کج روی کی وجہ سے ہم نے اپنے اللہ سے اعراض برت رکھا ہے، حالاں کہ سورہ طہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ” اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے “
2022 ء کے اختتام پر کتنے ہی تاباں اور فروزاں وہ چہرے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکے، جو اس سال کے شروع میں ہمارے دل لبھایا کرتے تھے۔احمد فراز نہ کہا تھا
آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
دسمبر کے ان آخری ایام میں مجھے کہروڑ پکا کے مولانا عبدالقدیر شاہین کے جنازے کا آنسوؤں میں بھیگا منظر تڑپا گیا ہے۔ٹھٹھرتی اور یخ بستہ رات میں بہت ہی رقت آمیز منظر تھا، آنسوؤں کی جھڑی لگی تھی، سیکڑوں آنکھیں اشک بار تھیں، قرب جوار ہی نہیں دُور دُور سے سسکیوں اور آہوں کی صدائیں سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی، آنسو تو کسی عام شخص کے بھی بڑے خاص ہوتے ہیں مگر یہ آنسو تو خاص الخاص تھے اس لیے کہ یہ سیکڑوں علما، اساتذہ اور طلبہ کی آنکھوں سے بے ساختہ چھلک چھلک جا رہے تھے۔زندگی کے تمام موسم ہی بے اعتبار بھی ہیں اور بے اختیار بھی، انسان کو بھلا اپنی جان پر بھی اختیار ہی کب ہے۔بدن کی اینٹیں کب چٹخ جائیں کچھ پتا نہیں ہوتا۔جگر کے سرطان نے عالَمِ شباب میں مولانا عبدالقدیر شاہین کی جان لے لی تھی۔ندا فاضلی نے کہا تھا:-
اُس کو رخصت تو کیا تھا، مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
اگر عین بھری جوانی میں لوگوں کو مرتے دیکھ کر ہمارے سنسان اور ویران دل میں اللہ کی مَحبّت کے گلاب چٹک گئے ہیں تو ہم بڑے ہی سعید بخت ہیں، پھر سردی کی ان ٹھٹھرتی راتوں کے کسی پہر چُپکے سے اٹھیں، ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر چند آنسو ضرور بہایا کریں کہ آنسو اللہ کو بڑے ہی محبوب ہیں اور اگر ابھی تک ہمارے دلوں کی کیفیت اس سے بالکل متضاد ہے اور اگر زندگی کی اس گہما گہمی میں ہم نے خالقِ حقیقی کو فراموش کر دیا ہے تو یاد رکھیں! وہ دن بھی ضرور آنے والا ہے جب ہماری نمازِ جنازہ کے اعلانات بھی ہوں گے، ہمیں بھی تختے پر لِٹا کر آخری غسل دیا جائے گا۔یقینا وہ دن بہت جلد آنے والا ہے جب ہمیں منوں مٹی کے ڈھیر تلے دفن کر کے اپنے پرائے سب رخصت ہو جائیں گے، سورہ آلِ عمران کی آیت 185 میں اللہ ارشاد فرماتے ہیں۔
” ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تم لوگ قیامت کے دن اپنے کیے کا پورا پورا اجر پاؤ گے۔پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا وہی کامیاب ہُوا اور دنیا کی چند روزہ زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ “