غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کو بھاری نقصان اور جانی ضیاع کا سامنا ہے۔ گزشتہ روز دجالی ریاست نے زیادہ سے زیادہ 3 ہلاکتوں کے اعلان کی “بندش” ختم کر دی، جن کا اعلان وہ روزانہ کرتے تھے اور ہلاکتیں بھلے کتنی ہی ہوں اعلان 3 سے زیادہ کا نہیں کیا جاتا تھا۔ مگر کل پہلی بار ایک دن میں 7 فوجیوں کے مردار ہونے کا اعلان کیا گیا۔ وہ تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ قبرستان شفٹ ہونے کے اعلان کا اعزاز صرف افسران کو حاصل ہے۔ سپاہی بے چارے اس قابل ہی نہیں سمجھے جاتے۔ کل جہنم کی خوراک بننے والوں میں سب سے اعلیٰ افسر، میجر جنرل جیل ڈینیئلز صائپ تھا۔ ہر روز بے شمار مردار بدبودار فوجی کالے تھیلوں میں اور پھر موبائل سرد خانوں میں جمع ہوتے ہیں۔ دجال کو سمجھ نہیں آرہا کہ اس کا واسطہ کیسی مخلوق سے پڑا ہے۔

ادھر خان یونس میں اپنی آنکھ قــســامی اسنائپر کے ہاتھوں کھو دینے والا دجالی فوجی “متان”۔۔ کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے۔ جو مکمل طبی امداد کے باجود اپنی انکھوں سے اندھا ہوگیا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ وکٹری کا نشان بنا رہا ہے۔ یہ اس لئے خوشی سے وکٹری کا نشان بنا رہا ہے، کہ اب یہ میڈیکلی ریٹائر ہو جائے گا اور دوبارہ محاذ جانے اور بھوتوں کا سامنا کرنے سے اس کی جان چھوٹ گئی۔ آنکھ گئی تو کیا، جان تو بچ گئی ناں! واضح رہے کہ لڑائی کے دوران اســرائـیلی فوجی اندھے ہو رہے ہیں۔ یہ تعداد اب تک 100 سے تجاوز کر چکی ہے۔ صرف پچھلے 3 دنوں میں سوروکا آئی اسپتال میں 45 پھوٹی آنکھوں والے فوجی لائے گئے۔ یہ خبر دجالی میڈیا خود چلا رہا ہے۔ یہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لڑا گیا معرکۃ العیون کی یاد دلا رہا ہے۔ مجوس کے ساتھ “انبار” میں سپاہیوں سے کہا: اپنا نشانہ دشمنوں کی آنکھوں پر مرکوز رکھیں! پھر ایسا ہی ہوا۔ 2 ہزار آنکھیں پھوڑیں گئیں، یہاں تک کہ لوگ چیخ اٹھے کہ “انبار کے لوگوں کی آنکھیں ختم ہوگئیں۔” جب فارسیوں کے سالار “شیرزاد” نے یہ دیکھا تو اس نے حضرت خالد بن الولید کو صلح اور ہتھیار ڈالنے کی درخواست بھیجی، اس جنگ کو “ذات العیون” (آنکھوں والی) جنگ کہا جاتا ہے اور یہ 12 ہجری میں ہوئی تھی۔

فلسطینی مجاہد کا حال یہ ہے کہ  چاہے ان کے اعضاء کاٹ دیے جائیں، وہ ثابت قدم رہتے ہے، اور اگلے دن وہ دوبار ہتھیار اٹھاتے ہے اور اپنے سرزمین پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔
جہاں تک د،شمن کے سپاہیوں کا تعلق ہے اگر ان میں سے کوئی معمولی زخمی بھی ہوجائے یا نفسیاتی طور پر ڈر جائیں تو وہ میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور اپنی فوج پر بوجھ بن کر گھر بیٹھ جاتا ہے۔
اسرائیلی میڈیاکے مطابق نصف ملین “اسرائیلی” جنگ سے فرار ہوکر اسرائیل چھوڑ گئے ہیں اور اب وہ واپس اسرائیل نہیں آنا چاہتے ہیں۔
جب کہ فلسطینی جنگجووں کے حامی ہزاروں(مسلمان) الرفح کراسنگ (مصر۔اردن کے سرحدوں) پر کھڑے ہیں،اور وہ غزہ میں داخل ہونے کے راستے ڈھونڈ کر اس کی سرزمین پر رباط کا اعزاز حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سب زمین چوروں اور زمین کے محافظ کے درمیان فرق کو ظاہر کرتا ہے۔

ضیاء چترالی