مقام محمود کسی جگہ کا نام نہیں بلکہ یہ اس موقع کو کہا گیا ہے کہ جب قیامت کے دن اللہ تعالی’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے گا کہ وہ ان گناہ گار مومن لوگوں کے لئے سفارش کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گر جائیں گے اور اللہ کی تعریف بیان فرمائیں گے پھر سر اٹھا کر ان لوگوں کے لئے سفارش کریں گے اور پھر اللہ کے حکم سے انہیں جہنم سے نکلوا کر جنت میں داخل کروائیں گے۔
مقام محمود کی تفصیل
ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض نے کیا یا رسول اللہ! کیا ہم لوگ اپنے رب کو قیامت کے دن دیکھیں گے، آپ نے فرمایا کیا تمہیں آفتاب و ماہتاب کے دیکھنے میں جب کہ آسمان صاف ہو کوئی مشکل ہوتی ہے، ہم نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا:

“کہ اس دن تمہیں اپنے رب کے دیکھنے میں اتنی ہی دقت ہوگی جتنی کہ ان دنوں آفتاب و ماہتاب کے دیکھنے میں ہوتی ہے پھر آپ نے فرمایا کہ ایک پکارنے والا پکارے گا کہ ہر جماعت کے لوگ ان کی طرف چلے جائیں، جن کی وہ عبادت کیا کرتے تھے، صلیب والے اپنی صلیب کے ساتھ اور بتوں کے پوجنے والے اپنے بتوں کے ساتھ اور ہر معبود والے اپنے اپنے معبودوں کے ساتھ ہوں یہاں تک کہ وہ لوگ رہ جائیں گے جو اللہ کی عبادت کرتے تھے خواہ وہ نیکوکار ہوں یا بدکار اور اہل کتاب کے بھی کچھ لوگ باقی ماندہ لوگ ہونگے، پھر جہنم ان کے سامنے پیش کی جائے گی جو سراب کی طرح نظر آئے گی، یہود سے پوچھا جائے گا کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے تھے، وہ کہیں گے عزیر ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ انہیں کہا جائے گا کہ تم نے جھوٹ کہا اللہ کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی اولاد، اب تم کیا چاہتے ہو، وہ کہیں گے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں پانی پلا دیں، کہا جائے گا کہ پی لو، پھر وہ جہنم میں گر جائینگے، پھر نصاریٰ سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کرتے تھے جواب دیں گے کہ مسیح ابن اللہ کی عبادت کرتے تھے، کہا جائے گا تم نے جھوٹ کہا، اللہ کی نہ تو بیوی ہے نہ اولاد، اچھا اب کیا چاہتے ہو جواب دیں گے کہ ہم پانی پینا چاہتے ہیں، کہا جائے گے کہا پی لو، پھر وہ جہنم میں گرجائیں گے یہاں تک کہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو اللہ کی عبادت کرتے تھے خواہ وہ نیکوکار ہوں یا بدکار، ان سے کہا جائے گا کہ اور لوگ تو جا چکے تم کو کس چیز نے روک رکھا ہے ؟ وہ کہیں گے ہم اس وقت جدا ہوگئے تھے جب کہ ہمیں ان کی زیادہ ضر ورت تھی اور ہم نے ایک منادی کو پکارتے ہوئے سنا کہ ہر جماعت کے لوگ اس کے ساتھ ہوجائیں گے جن کی وہ عبادت کرتے تھے اور ہم اپنے رب کا انتظار کر رہے ہیں۔

آپ نے فرمایا: کہ اللہ ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ آئے گا جس میں پہلی بار انہوں نے دیکھا ہوگا، اللہ فرمائے گا: “کہ میں تمہارا رب ہوں، وہ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے اس دن انبیاء کے علاوہ کوئی بات نہ کرسکے گا، اللہ فرمائے گا کیا تم کو اس کی کوئی نشانی معلوم ہے جس تم اسے پہچان سکو وہ کہیں گے وہ پنڈلی ہے اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھول دے گا، اس کو دیکھ کر ہر مومن سجدہ میں گرپڑے گا وہ لوگ رہ جائیں جو ریا و شہرت کی غرض سے اللہ کو سجدہ کیا کرتے تھے، وہ چاہیں گے کہ سجدہ کریں لیکن ان کی پیٹھ ایک تختہ کی طرح ہو جائے گی، پھر پل صراط لایا جائے گا اور جہنم کی پشت پر لا کر رکھا جائے گا ہم نے کہا یا رسول اللہ ! پل صراط کیا ہے، آپ نے فرمایا پھسلنے اور گرنے کی جگہ ہے اس پر کانٹے اور آنکڑے ہیں اور چوڑے گو کھرد (کا نٹے) ہیں اور ایسے ٹیڑھے کانٹے ہیں جو نجد میں ہوتے ہیں انہیں سعدان کہا جاتا ہے، مومن اس پر سے چشم زدن اور بجلی کی طرح اور ہوا کی طرح اور تیز رفتار گھوڑے اور سواریوں کی طرح گزر جائیں گے، ان میں سے بعض تو صحیح سلامت بچ کر نکل جائیں گے اور بعض اس حال میں نجات پائیں گے کہ ان کے اعضاء جہنم کی آگ سے جھلسے ہوئے ہوں گے، یہاں تک کہ ان کا آخری شخص گھسٹ کر نکلے گا تم مجھ سے حق کے مطا لبہ میں جو تمہارے لئے ظاہر ہوچکا ہے آج اس قدر سخت نہیں ہو جس قدر مومن اس دن اللہ سے کریں گے اور جب وہ لوگ دیکھ لیں گے کہ اپنے بھائیوں (کی جماعت) میں سے انہیں نجات مل گئی ہے تو کہیں گے اے ہمارے رب یہ ہمارے بھائی ہیں کہ ہمارے ساتھ صلاۃ ادا کرتے تھے اور صوم رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ کام کیا کرتے تھے، تو اللہ فرمائے گا جاؤ جس کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان پاؤ اسےجہنم سے نکال لو اور اللہ ان کی صورتوں کو آگ پر حرام کر دے گا، چناچہ وہ لوگ ان کے پاس آئیں گے اس حال میں بعض لوگ قدم تک اور نصف پنڈلیوں تک آگ میں ڈو بےہوں گے، جن کو پہچانیں گے ان کو جہنم سے نکال لیں گے پھر دوبارہ آئیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ اور جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان پاؤ اسے جہنم سے نکال لو، چناچہ جن کو پہچانیں گے ان کو نکال لیں گے پھر لوٹ آئینگے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان پاؤ اسے نکال لو چناچہ جن کو پہچانیں گے ان کو نکال لینگے۔ ابوسعید نے کہا کہ اگر تم مجھے سچا نہیں سمجھتے تو یہ آیت پڑھو کہ اللہ تعالیٰ ایک ذرہ برابر کمی نہیں کرے گا اور اگر نیکی ہوگی تو اس کو چند در چند کر دے گا، جب نبی فرشتے اور ایماندار سفارش کر چکیں گے تو اللہ فرمائے گا کہ میری شفاعت باقی رہ گئی ہے اور جہنم سے ایک مٹھی بھر کر ایسے لوگوں کو نکالے جو کوئلہ ہوگئے ہوں گے پھر وہ لوگ ایک نہر میں جو جنت کے سرے پر ہے اور جس کو آب حیات کہا جاتا ہے ڈالے جائیں گے تو یہ لوگ اس طرح تر و تازہ ہوجائیں گے جس طرح دانہ پانی کے بہنے کی جگہ میں سرسبز اگتا ہے جس کو تم نے درخت یا پتھر کے پاس دیکھا ہوگا جو آفتاب کی طرف ہوتا ہے وہ سبز ہوتا ہے اور جو سایہ کی طرف ہوتا ہے وہ سفید ہوتا ہے، وہ لوگ موتی کی طرح چمکتے ہوئے نکلیں گے، ان کی گر دنوں میں مہریں لگادی جائیں گی، پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے تو جنت والے کہیں گے کہ یہ لوگ اللہ کے آزاد کردہ ہیں ان کو اللہ نے بغیر کسی عمل اور نیک کام کے جنت میں داخل کیا ہے پھر ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے دیکھا اتنا ہی اور بھی تمہارا ہے۔

انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا قیامت کے دن مومن روکے جائیں گے یہاں تک کہ وہ اس کے سبب سے لوگ غمگین ہوں گے تو کہیں گے کہ ہم اپنے رب کے پاس سفارش کرائیں تاکہ ہمیں اس جگہ سے نجات ملے، چناچہ یہ لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور کہیں گے آپ آدم، آدمیوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ کو جنت میں جگہ دی اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرا یا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے لہذا آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کریں کہ ہمیں اس جگہ سے نجات ملے، آدم ؑ جواب دیں گے کہ میں آج اس کے لائق نہیں ہوں اور اس غلطی کو یاد کریں گے جو انہوں نے کی تھی یعنی درخت کا کھانا، جس سے ان کو منع کیا گیا تھا اور کہیں گے کہ تم نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ پہلے نبی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے زمین والوں کی طرف بھیجا تھا چناچہ یہ لوگ نوح ؑ کے پاس آئیں گے، وہ کہیں گے کہ میں آج اس قابل نہیں ہوں اور اپنی غلطی کو یاد کریں گے جو انہوں نے کی تھی یعنی اپنے رب سے بغیر علم کے سوال کرنا (پھر کہیں گے) لیکن تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ، وہ لوگ ابراہیم ؑ کے پاس جائیں گے تو وہ جواب دیں گے کہ میں آج اس لائق نہیں ہوں اور اپنی تین باتیں یاد کریں گے جو انہوں کہی تھیں، لیکن موسیٰ علیہ السلام ٰ کے پاس جاؤ، وہ ایسے بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تورات دی اور ان سے ہم کلام ہوا اور ان کو نزدیک کر کے سرگوشی کی، وہ جواب دیں کہ میں آج اس قابل نہیں اور قتل نفس کی غلطی کے ارتکاب کو یاد کر کے کہیں گے کہ عیسیٰ ٰکے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اللہ کی روح اور اس کے کلمہ ہیں، لوگ عیسیٰ ؑ کے پاس آئیں گے وہ جواب دیں گے کہ میں آج اس قابل نہیں مگر تم محمد ؐکے پاس جاؤ۔ وہ ایسے بندے ہیں کہ اللہ نے ان کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں، (آپ فرماتے ہیں کہ) وہ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں رب سے اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہوں گا، مجھے اجازت ملے گی جب میں اسے دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑوں گا جس قدر اللہ کو منظور ہوگا مجھے اسی حال میں رہنے دے گا، پھر فرمائے گا کہ محمد سر اٹھاؤ کہو سنا جائے گا شفاعت کرو قبول ہوگی اور مانگو دیا جائے گا آپ نے فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی حمد و ثنا کروں گا جو اللہ مجھے سکھائے گا پھر میرے لئے ایک حد مقرر فرمائے گا میں جا کر ان لوگوں کو جنت میں داخل کروں گا اور قتادہ نے کہا کہ میں نے ان سے یہ بھی کہتے سنا کہ میں جا کر ان کو جہنم سے نکال لونگا اور جنت میں داخل کروں گا۔

پھر میں لوٹ کر آؤں گا اور اللہ کے گھر داخلہ کی اجازت چاہوں گا، مجھے اجازت ملے گی، جب میں اسے دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑوں گا جتنی دیر تک اللہ کو منظور ہوگا مجھے اسی حال پر چھوڑ دے گا، پھر فرمائے گا اے محمد سر اٹھاؤ اور کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو قبول ہوگی، مانگو دیا جائے گا، آپ نے فرمایا کہ میں اپنا سر اٹھاؤ نگا اور اپنے رب کی حمد و ثنا کرو نگا جو اللہ مجھے سکھائے گا، آپ نے فرمایا کہ میں شفاعت کروں گا اور میرے لئے ایک حد مقر کردی جائے گی تو میں جا کر ان کو داخل کروں گا۔ قتادہ نے کہا کہ میں نے انس کو یہ بھی کہتے سنا کہ میں جا کر ان کو جہنم سے نکال لوں گا اور جنت میں داخل کروں گا۔ پھر میں لوٹ کر آؤں گا اور اللہ کے گھر میں داخلہ کی اجازت چاہوں گا، مجھے اجازت ملے گی، جب میں اسے دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا جس قدر اللہ کو منظور ہوگا مجھے اسی حال پر چھوڑ دے گا، پھر فرمائے گا کہ اے محمد سر اٹھاؤ کہو سنا جائے گا شفاعت کرو قبول ہوگی اور مانگو دیا جائے گا آپ نے فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤ نگا اور اپنے رب کی حمد و ثنا کروں گا جو اللہ مجھے سکھائے گا پھر میرے لئے ایک حد مقرر فرمائے گا میں جا کر ان لوگوں کو جنت میں داخل کروں گا اور قتادہ نے کہا کہ میں نے انس کو یہ بھی کہتے سنا کہ میں جا کر ان کو جہنم سے نکال لوں گا اور جنت میں داخل کروں گا، پھر میں تیسری بار لوٹ کر آؤں گا اور اپنے رب سے اجازت چاہوں گا اور مجھے اجازت ملے گی، جب میں اس کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ کو منظور ہوگا مجھے اسی حالت میں رہنے دے گا پھر فرمائے گا اے محمد سر اٹھاؤ، کہو سنا جائے گا، سفارش کرو، قبول ہوگی، مانگو دیا جائے گا آپ نے فرمایا میں سر اٹھاؤں گا اور اپنے رب کی حمد وثنا کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا، آپ نے فرمایا کہ پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے ایک حد مقرر کردی جائے گی، میں جا کر انہیں جنت میں داخل کراؤں گا۔ قتادہ نے کہا کہ میں انس کو کہتے ہوئے سنا کہ میں ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا یہاں تک کہ جہنم میں کوئی بھی باقی نہیں رہے گا، بجز ان کے جن کو قرآن نے روک رکھا ہوگا یعنی (قرآن کی رو سے) جن پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہے۔

انس کا بیان ہے کہ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما ً محمو دا ً

اور فرمایا: کہ یہی مقام محمود ہے جس کا تمہارے نبی سے وعدہ کیا گیا تھا۔
احادیث سے ’’ مقام محمود ‘‘ کی یہی تعریف ملتی ہے کہ قیامت کے دن جب نبیﷺ کو مومنین کی شفاعت کی اجازت دی جائے گی تو یہی ’’ مقام محمود ‘‘ کہلاتا ہے۔ نبیﷺ کو جب اللہ تعالیٰ اجازت دے گا تو وہ سجدے میں گر جائیں گے پھر سر اٹھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف جو حمد و ثناء نبی ﷺ کو سکھائی جائےگی وہ کریں گے پھر انہیں شفاعت کے لئے کہا جائے گا اور ایک حد مقرر کردی جائے گی (کہ ان ان کے لئے شفاعت کرو) ۔ پھر جب اللہ لوگوں کے بارے میں شفاعت قبول کرلے گا تو انہیں جہنم سے نکلوا کر جنت میں داخل کرائیں گے اور ایسا تین بار ہوگا۔ پھر جہنم میں وہی لوگ رہ جائیں گے جن کے بارے میں قرآن کا فیصلہ ہے ( یعنی کافر و مشرک جن کے بارے میں قرآن و حدیث نے واضھ کردیا ہے کہ جنت ان پر حرام ہے اور یہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے)۔
قیامت کے دن نبیﷺ کی شفاعت کا حقدار کون ہوگا؟
نبی ﷺ نے فرمایا:
“سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے قیامت کے دن وہ شخص ہوگا جو صدق دل سے یا اپنے خالص دل سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دے۔ ‘‘
( صحیح بخاری ، کتاب العلم، بَابُ الحِرْصِ عَلَى الحَدِيثِ، عن ابی ھریرہؓ )

حافظ محمد طاھر