سوال (1315)

ایک آدمی مسافر ہے ، مسجد میں امام چار رکعتیں پڑھاتا ہے ، اب یہ مسافر گھر میں ہی دو رکعت پڑھ لیتا ہے ، مسجد میں اس وجہ سے نہیں جاتا ہے کہ امام چار رکعات پڑھاتا ہے ، اب اس شخص کا کیا حکم ہے؟

جواب

مسافر کے لیے رخصت پر عمل کرنا اولی ہے ، بہتر ہے کہ وہ قصر پر عمل کرے ، بس یہ اگر موقع دیکھ کر مسجد میں یا گھر میں دو رکعت پڑھتا ہے ، اور قصر کرتا ہے ، توقصر اس کے لیے اولی ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل :
اگر اس شخص کو جماعت کےٹائم کا بھی پتا ہو ، اذان بھی ہوتی ہو ، پھر بھی یہ شخص گھر میں دو رکعت پڑھتا ہو ، اس شخص کا کیا حکم ہے ؟
جواب :
وہ شخص مسافر ہے ، اس کو اجازت ہے ، وہ اپنی قصر نماز ادا کر رہا ہے ، ٹھیک ہے ، جمع کرکے پڑھے تو زیادہ اچھا ہے ، جو مسافر جمع کر لیتے ہیں ، وہ آرام میں رہتے ہیں ، جماعتوں میں شریک نہیں ہوتے ہیں ، اس میں کوئی شرعی طور پر قباحت نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

نماز باجماعت کا اجر پانا چاہیے ، بھلے مقیم کے پیچھے مکمل پڑھنی پڑھے ، جیسا کہ حرمین میں پڑھی جاتی ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

یہ بات محل نظر ہے ، جماعت فرض ہے مقیم کے لئے بھی اور مسافر کے لئے بھی . مسافر کے لیے جماعت ترک کرنے کی رخصت کی کوئی دلیل نہیں ہے ، اگر مسافر لوگ جماعت کرواتے ہیں تو قصر کرنا اولی اور افضل ہے اور اگر ایک شخص مسافر ہے اور وہ مقیم لوگوں کی جماعت کو پا سکتا ہے تو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اس پر واجب ہے اور مقیم امام کے پیچھے نماز پوری پڑھے گا۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

مسافر کو نمازیں جمع کرنے کی اجازت ہے۔
لیکن افضل یہ ہے کہ جب وہ بستی میں اتر جائے جہاں جانا مقصود تھا تو وہ نماز جمع نہ کرے بلکہ ہر نماز اس کے وقت پر ادا کرے جیسا کہ نبی علیہ السلام کا حجة الوداع میں عمل تھا ، بعض علماء جمع کی اجازت صرف ایسے آدمی کے لئے دیتے ہیں جو حالت سفر میں ہو۔
ایسا درست نہیں نازل یعنی جو بستی میں اتر گیا اس کو بھی اجازت ہے ، دلیل یوم تبوک کی نمازوں سے لی گئی ہے۔ اسی طرح شیخ عثیمین رحمہ اللہ نے بعض احادیث ذکر کر کے فرمایا ان کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نازل کو بھی جمع کی اجازت ہے۔
لیکن نزولیت کی حالت میں جمع کو اولی اور افضل کہنا محل نظر ہے۔
افضل اور اولی نزولیت کی حالت میں ہر نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ہے ، جبکہ جمع کا جواز ہے
واللہ اعلم.

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ