ڈپریشن پاکستانیوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی، ملکی حالات، اور عالمی حالات نے ہر گھر کے رہنے والوں پر اثر کیا ہے۔ انسانوں پر جب آفتیں نازل ہوتی ہیں تو انکے رہن سہن بدل جاتے ہیں۔ شائد ابھی یہی ہو رہا ہے۔
لوگ ایک دوسرے سے تنگ پڑ رہے ہیں۔ خودغرضی کی ایک نئی لہر کی آمد ہے۔ جس میں لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان کو بچ جانا چاہیے باقی چاہے کوئی رہے نہ رہے۔
ایک مہنگائی تو ڈالر، پیٹرول، ملکی سیاست، اور غائب کی حکمرانی نے نازل کی ہے۔ دوسری ہمارے اپنے رویوں نے کر دی ہے۔ سبزی والا بجلی کا بل دینے کو سبزی مہنگی کرتا ہے تو خریدنے والا مکینک اپنے سروس چارجز ڈبل کر دیتا ہے کہ اس کو مہنگی سبزی خریدنا ہے۔ گاڑی ٹھیک کروانے والا اپنا کرایہ بڑھا دیتا ہے، اور کرایہ دینے والا درزی یا حجام اپنے دام بڑھا دیتے ہیں۔ گروسری ہر روز نئی قیمت پر سیل ہو رہی ہے۔
ان تمام حالات کا اثر آپسی رشتوں پر پڑ رہا ہے۔ دوستی، ہمسائیگی تو ختم کی جا سکتی ہے کہ ان کے بغیر بھی چل ہی رہے ہیں، مگر ایک ہی گھر کے رشتوں میں ان حالات کا اثر بڑھتا جا رہا ہے۔ طلاقوں کی ایک بڑی وجہ لوگوں کے مالی حالات ہیں۔ انداز زندگی بھی خیر ایک وجہ ہے، لیکن جب مہنگائی اس قدر ہو جائے کہ مڈل کلاس کو بھی کھانے کے لالے پڑ جائیں تو ایسے میں رشتوں میں مٹھاس کہاں سے باقی بچے۔
لکھنے والا مقروض ہوتا ہے اس قوم کا جس میں پیدا ہوتا ہے۔ ویسے یہ کلیہ ہر صاحب فن پر لاگو ہوتا ہے۔ کہ قدرت کی طرف سے اس کو دی گئی صلاحیتیں اس کی قوم کے کام آئیں۔
لکھاریوں کو چاہیے کہ اس ڈپریشن کے وقت میں زیادہ سے زیادہ امید کی شمعیں جلائیں۔ اور سیاست سے قطع نظر قوم کو آپسی رشتوں کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیں۔
لوگ فرسٹریٹڈ ہیں۔ اور بظاہر ان حالات سے نکل بھاگنے کا رستہ بھی کوئی نہیں۔ سیاسی طور پر لوگ کچھ پر امید ہیں، مگر جاننے والے بتاتے ہیں کہ “ایک براہمن نے کہا ہے یہ سال ‘اچھا نہیں’ ہے” ۔ ۔ ۔ گویا عوام کے لیے اوورآل اس خطے میں زندگی مشکل ہی ہے۔
ایسے حالات میں امید کی لو  کو روشن کرنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت لکھاری، مقررین، واعظین اور سوشل موبلائزرز کو اپنا کردار کرنا چاہیے۔ لوگوں کے زخم پر مرحم رکھنی چاہیے۔ انہیں مشکل میں حوصلہ دینا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر اللہ سے طرف تعلق اور رجوع کو مضبوط کرنا چاہیے۔ تاکہ مشکل حالات سے نکلنے میں اس کی سہارا لیاجاسکے۔

محمود فیاض