سوال (425)

«آپ نے سجدے سے سر کیوں اٹھایا ؟ فرمایا بچے اپنا رانجھا راضی کرلیں اور میں سجدے میں اپنا رانجھا راضی کرلوں ۔ صلی اللہ علیہ وسلم»
سوال یہ ہے کہ یہ کس حدیث کا مفہوم ہے؟ اور یہ کہنا درست ہے؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں ؟

جواب

یہ کسی حدیث کے الفاظ کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ تفہیم کے لیے عوامی انداز ہے ۔
ولا حرج فیہ ان شاءاللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

شیخ محترم کے جواب کے ساتھ مزید:
جس حدیث کا یہ مفہوم ہے وہ یہ ہے:
روى النسائي (1141)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِحْدَى صَلاتَيْ الْعِشَاءِ وَهُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَيْنًا ، فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَهُ ثُمَّ كَبَّرَ لِلصَّلاةِ ، فَصَلَّى فَسَجَدَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلاتِهِ [أي في أثناء صلاته] سَجْدَةً أَطَالَهَا ، قَالَ أَبِي : فَرَفَعْتُ رَأْسِي وَإِذَا الصَّبِيُّ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ سَاجِدٌ ، فَرَجَعْتُ إِلَى سُجُودِي ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاةَ قَالَ النَّاسُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّكَ سَجَدْتَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلاتِكَ سَجْدَةً أَطَلْتَهَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ ، أَوْ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْكَ ، قَالَ : كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ . “وَلَكِنَّ ابْنِي ارْتَحَلَنِي فَكَرِهْتُ أَنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ”.

آخری نمایاں کردہ الفاظ ہیں، لیکن صاف واضح ہے کہ مفہوم کے بیان میں کافی توسع اختیار کیا گیا ہے!
اسی طرح اس میں رانجھا راضی کرنا کی ترکیب اگر دل کو راضی کرنا ہو تو کوئی حرج نہیں، ورنہ کوئی اچھی تعبیر نہیں ہے!!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ