سوال (301)

آج کل مختلف امراض کے لیے تیل تیار کیے جاتے ہیں ، جن میں مردہ بچھو یا سانپ وغیرہ کی چربی استعمال کی جاتی ہے ، کیا ایسے تیل سے مالش کرنا درست ہے ، وہ تیل نجس ہوگا یا نہیں ؟ جسم کو لگا ہوا ہو تو نماز پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں ؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

اللہ تعالیٰ نے وسائل ، اسباب اور ذرائع بڑھا دیے ہیں ، مشکوک چیزوں میں واقع نہیں ہونا چاہیے ، حکم ہے کہ شک و شبہ کو چھوڑ دو ، اس طرح تیل اور آئل میں کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے ، بس یہ باتیں لوگوں کے درمیان اڑا دی گئی ہیں ، تیل بنانے کا جو دعویٰ ہے وہ کہاں تک صحیح ہے یا غلط ہے یہ بھی محل نظر ہے ، کیا یہ واقعتاً جانوروں سے کشید کیا گیا ہوتا ہے ، مزید یہ ہے کہ اگر ہم مان لیتے ہیں کہ ان جانوروں سے تیل بنایا گیا ہے اور فلاں طبیب نے بتایا ہے کہ فلاں مسئلے میں اس تیل کا استعمال کیا جائے تو مرہم کے طور پر ، جس کو ایکسٹرنل یوز کہتے ہیں تو لگایا جا سکتا ہے۔
باقی اس کو تجارت یا صنعت بنانا ، اس کی خرید اور فروخت کو رواج دینا یہ صحیح نہیں ہوگا ، مجبوراً کوئی چیز بنائی بھی جا سکتی ہے اور نہ ملے تو خریدی بھی جا سکتی ہے کیونکہ مجبوری کے احکامات الگ ہوتے ہیں ۔
باقی اس کی نجاست کے لیے ادلہ ہونی چاہیں جو کہ میرے خیال سے مفقود ہیں ، نجاست کے فتوے کے لیے دلیل چاہیے ، اگر نجاست ثابت ہوجاتی ہے ، اگر اس کو نجس بنادیا جائے تو اس کی خریدوفروخت کو رواج نہ دیا جائے ، باقی ضرورت پڑ گئی ہے تو بنادیا ہے یا کہیں سے بنا بنایا مجبوراً لے لیا ہے جب کوئی صورت نہ ہو ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

“فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ” [سورة البقرة : 173]

’’پھر جو مجبور کر دیا جائے، اس حال میں کہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے‘‘۔
جس طرح اصولیوں کا قاعدہ ہے :

“الضرورات تبيح المحظورات”

’ضرورتیں ممنوع چیزوں کو مباح کردیتی ہیں‘۔
اگر اس کو نجس مان لیا ہے ، تو بحالت مجبوری اس کو لگانا درست ہے ، نماز کے لیے اس کو صاف کرنا ضروری ہے ، اگر نجس نہیں ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
اس کی تفصیل کے لیے “بداية المجتهد” اور امام نووی رحمہ اللہ کی “المجموع” دیکھیں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ