سوال (2297)

لاہور میں عصر کی نماز کا وقت 3:44 سے شروع ہوتا ہے، اگر ہم 4:15 پہ نماز پڑھتے ہیں تو ایک ساتھی نے کہا ہے کہ ہمارا اول وقت نکل جاتا ہے، کیا واقع اول وقت نکل جاتا ہے، اور یہ بتائیں کہ نماز نبوی یا نماز محمدی نامی کلینڈر اتھینٹک ہیں؟

جواب

آج کل کے حساب سے4:15 نماز عصر کا اول وقت ہی ہے۔
عصر كا وقت:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
“اور عصر كا وقت اس وقت تك ہے جب تک سورج زرد نہ ہو ”
عصر كا ابتدائى وقت ظہر كا وقت ختم ہونے ( يعنى ہر چيز كا سايہ اس كے برابر ہونے كے وقت ) سے شروع ہوتا ہے، اور عصر كى انتہاء كے دو وقت ہيں:
(1) : اختيارى وقت:
يہ عصر كے ابتدائى وقت سے لے كر سورج زرد ہونے تك ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
“عصر كا وقت جب تك سورج زرد نہ ہو جائے”
يعنى جب تك سورج پيلا نہ ہو جائے، اس كا گھڑى كے حساب سے موسم مختلف ہونے كى بنا پر وقت بھى مختلف ہو گا.
(2) اضطرارى وقت:
يہ سورج زرد ہونے سے ليكر غروب آفتاب تک ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
“جس نے سورج غروب ہونے سے قبل عصر كى ايك ركعت پا لى اس نے عصر كى نماز پالى ”
صحيح بخارى حديث نمبر : 579 ، صحيح مسلم حديث نمبر 608.
مسئلہ:
ضرورت اور اضطرارى وقت كا كيا معنى ہے؟
ضرروت كا معنى يہ ہے كہ اگر كوئى شخص ايسے كام ميں مشغول ہو جس كے بغير چارہ كار نہيں مثلا كسى زخم كى مرہم پٹى كر رہا ہو اور وہ سورج زرد ہونے سے قبل مشقت كے بغير نماز ادا نہ كر سكتا ہو تو وہ غروب آفتاب سے قبل نماز ادا كر لے تو اس نے وقت ميں نماز ادا كى ہے؛ اس پر وہ گنہگار نہيں ہو گا؛ كيونكہ يہ ضرورت كا وقت تھا، اور اگر انسان تاخير كرنے پر مجبور ہو تو سورج غروب ہونے سے پہلے نماز ادا كر لے۔

دَخَلتُ بَيتَ المَقدِسِ فوَجَدتُ فيه رَجُلًا يُكثِرُ السُّجودَ، فوَجَدتُ في نَفْسي مِن ذلك، فلَمَّا انصَرَفَ قُلتُ: أتَدْري على شَفْعٍ انصَرَفتَ أم على وِتْرٍ.

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ