سوال (457)

نماز میں تشہد میں کچھ لوگ انگلی کھڑی رکھتے ہیں، کچھ اسے حرکت بھی دیتے ہیں، دونوں میں سے صحیح موقف کیا ہے؟

جواب

یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے، اور دونوں طرف دلائل موجود ہیں۔ اور دونوں طرف مستقل کتابیں تصنیف کی گئی ہیں۔
مجھے علمائے کرام کے جس موقف پر شرح صدر ہے، وہ یہ ہے کہ انگلی کو ابتدائے تشہد سے انتہا تک کھڑا رکھنا چاہیے، حرکت نہیں دینی چاہیے۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا وَلَا يُحَرِّكُهَا. [سنن ابي داود:989]

سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ نے ذکر کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے اور اسے حرکت نہ دیتے تھے۔
بعض اہل علم کے نزدیک حرکت نہ دینے والی یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تاہم بعض علماء نے اس کو صحیح قرار دیتے ہوئے اشارہ کرنے اور حرکت نہ دینے کے درمیان یہ تطبیق دی ہے کہ آپ اشارہ کرتے مگر حرکت میں تکرار نہ ہوتا تھا۔ جیسا کہ شوکانی نے نیل الاوطار میں ذکر کیا ہے۔ اس صورت میں حرکت اور اشارہ دونوں پر عمل ہو جاتا ہے یعنی تشہد میں بیٹھتے ہی انگلی اٹھالی جائے اور اسے سلام پھیرنے تک اشارے کی حالت میں کھڑا رکھا جائے۔
اس حوالے سے عربی میں ایک کتاب ہے،

البشارة في شذوذ تحريك الإصبع و ثبوت الإشارة.

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

الشیخ عمر فاروق السعیدی نے بھی شرح سنن ابی داؤد میں یہی موقف بیان کیا ہے ۔ کہ انگلی کو ابتدائے تشہد سے ہی اٹھا کر رکھے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ