ہم بہت بھٹک چکے ہیں، سنگلاخ اور پیچیدہ راستوں کی طرف، بہت دُور، مطلب پرستی کی ہولناک راہوں پر چلتے چلتے واقعی ہم حقیقی مَحبّتوں کے تابندہ اور درخشندہ راستوں سے کہیں بہت پَرے اَنجان سی پگڈنڈیوں کی طرف ایک ایسا سفر اختیار کر چکے ہیں جو کسی نہ کسی غرض یا مطلب کی تکمیل پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔مَحبّتوں میں تیشہ زنی کی حکایات کب کی شکستہ ہو چکیں، چاہتوں کے حصول کے لیے صحرا نوردی کب کی قصّہ ء پارینہ بن چکی، الفتوں کی لذتوں سے آشنائی کرنے کے لیے آبلہ پائی کو اوراقِ گذشتہ میں بوسیدہ ہوئے ایک زمانہ بیت چکا۔آج اسلوبِ مَحبّت اور اطوارِ چاہت میں ” ضرورت “ داخل ہو چکی، اب تو دلوں کے مضافات اور اذہان کے نواح میں فقط ” ضرورتیں “ ہی اگتی ہیں۔وطن کی مَحبّت ہو یا کسی دل رُبا اور دل نشیں شخص کی سچی لگن، ہم ” غرض “ ہی سے تو بندھے ہیں، اور تو اور ہم تو اپنے محسنوں کو بھلانے میں بھی دیر نہیں لگاتے، کوئی شخص مُلک و ملت کا کتنا ہی بڑا محسن کیوں نہ ہو، بس اُس کی دنیا سے رخصتی کے ساتھ ہی ہم اُس کے احسانات کو بھی گہری قبروں میں دفن کر آتے ہیں۔داغؔ دہلوی نے کہا تھا۔
اُڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
وہ پاکستانی کہلوایا جانے والا سب سے پہلا شخص تھا جو 16 نومبر 1897 ء کو ہوشیار پور کے گاؤں موہراں میں پیدا ہوا، چودھری رحمت علی نے ہمیں ایک منفرد شناخت اور ارفع پہچان دی۔1915 ء میں تقسیمِ ہند کا نظریہ پیش کیا، اُس جنوں خیز انسان نے اپنی کتاب Now or never میں پہلی بار لفظ ” پاکستان “ استعمال کیا، دنیا کے نقشے پر معرضِ وجود میں آنے والی نئی اسلامی مملکت کا نام پاکستان اُنھیں اِس قدر محبوب تھا کہ اُنھوں نے 1935 ء میں کیمبرج سے ایک ہفت روزہ نکالا تو اس کا نام ہی ” پاکستان “ رکھ دیا۔وہ لوگ عجیب مًحبّت مآب جذبوں میں گُندھے تھے، اُن کے سینے کچھ ایسی جدوجہد سے مُزیّن تھے کہ چلتا پھرتا پاکستان دِکھائی دیتے تھے، پاکستان کے ساتھ والہانہ مَحبّت میں مبتلا اس شخص کا انتقال 3 فروری 1951ء کو برطانیہ میں ہوا، 17 دنوں تک اُس کی میّت کولڈ سٹوریج میں اپنے ہم وطنوں کا انتظار کرتی رہی مگر اقتدار کی ہَوَس میں مبتلا کسی سیاست دان کے دل میں لفظ ” پاکستان “ کے خالق اس شخص کے متعلق ترحمانہ جذبات نے انگڑائی نہ لی، 20 فروری 1951 ء کو دو مصری طلبہ نے اُس سب سے پہلے پاکستانی کو پاکستان سے کوسوں دُور کیمبرج کے قبرستان کی قبر نمبر 8330 میں لاوارث کے طور پر دفن کر دیا۔افسوس صد افسوس! آج اکہتّر سال بیت چلے، ایک لاوارث جسدِ خاکی آج بھی لاوارث ہی ہے۔کتنے ہی ” محبّ وطن “ سیاست دان اقتدار میں آئے، روٹی کپڑا اور مکان کے نعرہ ء دل ربا سے لے کر سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ ء مستانہ تک، بے شمار نعرے ہماری سماعتوں میں رَس گھولتے رہے، حقیقی جمہوریت سے لے کر آج حقیقی آزادی تک کا ” دل نشیں سفر “ ہمارے دل میں پاکستان کی مَحبّت کی سحر انگیز جوت جگا چکا، باری باری ہر سیاسی جماعت اقتدار کے مزے لے چکی، سیکڑوں وزرا نے حب الوطنی کے دعوے کیے مگر اکہتّر سالوں سے دیارِ غیر میں لاوارث سمجھ کر دفن کیے جانے والے چودھری رحمت علی کے جسدِ خاکی کو پاکستان میں لا کر دفن کر دینے کے متعلق کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی سنجیدہ کاوش نہ کی، آخر اُن کی لاش کو برطانیہ سے نکال کر پاکستان دفن کر دینے میں کیا قانونی پیچیدگیاں حایل ہیں، اور کتنے ڈالر اس پر خرچ ہو سکتے ہیں؟ تحریکِ پاکستان کا صفِ اوّل کا مجاہد اپنی تجہیز و تکفین کی مد میں 200 پونڈز کا قرض اپنے شانوں پر لیے آج تک دیارِ غیر کی گُم نام قبروں میں امانتاً دفن ہے، وزارتوں کی حرص، اقتدار کی ہوس نئے نویلے سیاسی چسکوں میں مبتلا تمام سیاسی پہلوان اپنے سب سے پہلے پاکستانی کے جسدِ خاکی کو کب پاکستان کی مٹی میں لا کر دفن کریں گے؟
کبھی کبھی ہمارے دلوں کے آنگنوں میں دیرینہ مَحبّتوں کے نقوش ابھر بھی آئیں، کسی لمحے ہمارے مَن میں مانوس عقیدتوں کی باس اتر بھی آئے تب بھی ہماری مصروفیات اور ہماری ” ضرورتیں “ اِس کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیتی ہیں، ہم نسبتوں کے مارے لوگ اپنے سیاست دانوں کو بھلکّڑ کبھی نہیں کہیں گے، البتہ احسان فروش ضرور کہیں گے کہ اگر ان سیاسی زعما کا اپنا کوئی چہیتا اور شناسا چہرہ اسی طرح دیارِ غیر میں دفن ہوتا تو اِن کی روحیں کانپ جاتیں اور اسے واپس لانے کے لیے ہر طرح کی جسارتیں کرتے مگر پاکستان کو نام اور پہچان دینے والے بے یار و مددگار شخص کی لاش کو لانے کے لیے آج تک کوئی سیاسی جماعت فعال دِکھائی نہیں دی، پھر مَیں کیوں نہ کہوں کہ یہ سب لوگ بے مروت اور بے وفا ہی تو ہیں، میر محمد بیدار نے سچ کہا تھا۔
بے مروّت، بے وفا، نامہرباں، نا آشنا
جس کے یہ اوصاف کوئی اُس سے ہو کیا آشنا