سنہ 1926ء میں حج ادا کرنے کے بعد میں فلسطین گیا۔ وہاں عرب مسلمانوں کے حالات دیکھ کر مجھے پتہ چلا کہ پشتونوں کی طرح عرب بھی امام مہدی کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کہ وہ آئے گا اور سب کچھ ٹھیک کرکے دے گا. بیت المقدس (یروشلم) میں مَیں گھومتا تھا. معلومات لیتا اور ہوٹلوں میں عربوں کے ساتھ فلسطین اور عربوں کے مستقبل پر بحث کرتا۔
ایک دن چند فلسطینیوں سے بحث ہو رہی تھی۔ میں نے کہا کہ دیکھو یہ آپ لوگ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں کہ یہودیوں پر اپنے زمینیں فروخت کرتے ہیں اور یہودی اس زمین کو آباد کر لیتے ہیں۔ یہ کام آپ لوگ خود کیوں نہیں کرتے؟ میں نے یہاں جو زمین آباد دیکھی ہے جہاں خوبصورت بنگلہ، باغیچہ اور پانی کا انتظام ہو وہ زمین یہودی کی ہوتی ہے اور جو زمین بنجر ہوتی ہے وہ مسلمان کی ہوتی ہے۔ یہودیوں نے فلسطین میں چھوٹے چھوٹے خوبصورت گاؤں بسائے اور بسا رہے ہیں لیکن آپ عرب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔
ان میں سے ایک عرب نے کہا کہ یہ چودهویں صدی آخری صدی ہے۔ ہم اپنی زمینیں یہودیوں کو اس لیے فروخت کر رہے ہیں کہ اس کے بعد تو امام مہدی آئے گا اور یہ ساری زمینیں دوبارہ مسلمانوں کی ہو جائیں گی۔
تب مجھے اندازہ ہوا کہ  پشتونوں کی طرح عربوں کو بھی امام مہدی کے انتظار میں بٹھایا گیاہے. وہ اتنے بے علم تھے کہ امام تو چھوڑو جب پیغمبروں کا ساتھ قوم نے نہیں دیا وہ بھی اپنی مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔
اب کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ فلسطین چلا جاؤں اور ان عربوں سے پوچھوں کہ وه چودهویں صدی تو ختم ہوگئی. وہ زمینیں کس کی ہوئیں یہودیوں کی یا مسلمانوں کی؟ جو قوم اپنی مفادات اور سرزمین کی حفاظت نہیں کرتی وہاں ظلم کی حکومت قائم ہوجاتی ہے۔

باچا خان: از میری زندگی اور جد و جہد