قبور صالحین کی حفاظت

نیک و صالح لوگوں کی قبروں کو غیر معروف ہی رکھنا چاہیے تاکہ لوگ کسی آزمائش میں نہ پڑیں اور انہیں عبادت گاہ نہ بنا لیں، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر قبے و مزار تعمیر کرنے سے منع فرمایا، سلف صالحین اس امر کا خاص خیال کرتے تھے کہ قبر عام مسلمانوں کے قبرستان میں ہو اور وہیں گم نام ہو جائے، اسی لیے بقیع الغرقد (جنت البقیع) میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قبریں غیر معروف ہیں، انبیاء کرام علیہم السلام کی قبروں میں سے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک بالاجماع و متفقہ طور پر معلوم ہے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قبر فلسطین میں معروف ہے جو کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بقول جمہور کے مطابق انہی کی قبر مبارک ہے ۔ [مجموع الفتاوی : 27/ 255]
ان دو انبیاء کے علاوہ کسی نبی کی قبر درست طرح سے معلوم نہیں ۔
✿ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تُستر کی فتح کے دوران ایک نبی کا جسدِ مبارک ملا تھا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسی اشعری اور انس رضی اللہ عنہما کو خط لکھا تھا :

«فَادْفِنُوهُ فِي مَكَانٍ لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ غَيْرُكُمَا».

’’ان کی ایسی جگہ تدفین کریں جس کا آپ دونوں کے علاوہ کسی کو بھی نہ پتا ہو۔‘‘
[مصنف ابن ابی شیبہ : 33819 وسندہ صحیح]
بلکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ آپ تیرہ قبریں کھودیں اور رات کو ان میں سے ایک قبر میں اس اللہ کے نبی کو دفن کریں اور سب قبروں پر برابر مٹی ڈال دیں تاکہ لوگ کسی فتنے کا شکار نہ ہوں۔ [مجموع الفتاوی لابن تیمیہ : 15/ 154]
✿ نعمان بن ابی شیبہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
’’میرے چچا مقامِ جند پر فوت ہوئے تو میں اپنے والد کے ساتھ ابن طاووس رحمہ اللہ کے پاس گیا، میرے والد نے انہیں کہا : اے ابو عبد الرحمن کیا میں آپ کو اپنے بھائی کی قبر نہ دکھاؤں؟ اس پر انہوں نے ہنس کر فرمایا : سبحان اللہ، اے ابو شیبہ! اگر تو آپ اس کے لیے دعا و استغفار کے لیے جائیں تو اچھا ہے وگرنہ آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ آپ کو اس کی قبر کا نہ ہی پتا ہو، کیا آپ کو پتا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبر پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے؟ تمہاری بہترین قبریں وہی ہیں جن کا کسی کو بھی پتا نہ ہو۔‘‘
[مصنف عبد الرزاق : 6495 وسندہ صحیح]

(حافظ محمد طاھر)

یہ بھی پڑھیں: نہج البلاغہ نامی کتاب کی حیثیت