اللہ تعالی روزِ محشر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَاُزۡلِفَتِ الۡجَنَّۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ غَیۡرَ بَعِیۡدٍ۔ ھٰذَا مَا تُوۡعَدُوۡنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیۡظٍ۔ مَنۡ خَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِ وَ جَآءَ بِقَلۡبٍ مُّنِیۡبِ۔
”اور جنت پرہیز گاروں کے لیے بالکل قریب کردی جائے گی کہ وہ ذرا بھی دور نہ ہوگی، یہ ہے وہ کہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لیے جو رجوع کرنے والا اور پابندی کرنے والا ہو، جو رحمن سے اسے دیکھے بغیر ڈرتا ہو، اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا دل لے کر آئے۔“
(سورہ ق : 31 – 33)
✿ فیض بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے فضیل بن عیاض رحمہ اللہ سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
“منیب وہ ہوتا ہے جو تنہائی میں اپنے گناہ کو یاد کر کے اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہے۔”
(مکارم الأخلاق للخرائطی : 59، صحیح)
امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اور اس کی طرف متوجہ دل۔”
(تفسیر طبری : 22/ 366 رجاله موثقون)
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اطاعتِ الہی کی طرف مائل مخلص دل۔”
(معالم التنزیل: 4/ 276)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اللہ تعالی کی نافرمانی سے اس کی اطاعت کی طرف پلٹنے والا”
(زاد المسير : 4/ 164)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“یعنی وہ شخص جو روزِ قیامت رجوع کرنے والے، سلامتی والے، اللہ تعالی کے سامنے جھکنے والا دل کر آیا۔”
(تفسیر ابن کثیر: 7/ 379)
علامہ ابنِ عاشور رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“مراد وہ بندہ ہے جو حشر کے دن فرمانبردار دل کے کر آیا کہ اس کی موت اسی انابت کی حالت میں واقع ہوئی اور اس نے آخری عمر میں اپنے اعمالِ صالحہ کو ضائع نہیں کیا۔”
(التحریر والتنویر: 26/ 320)
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“منیب۔ اناب کے معنی گناہ کے کاموں سے لوٹنا یا باز آنا۔ گناہ کا اعتراف اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ یعنی اس کا دل ہی ایسا تھا جسے گناہ کے کاموں سے نفرت تھی اور اگر اتفاق سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرتا تھا۔”
(تيسير القرآن)
مولانا صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اور اس کا اطاعت گزار دل۔ یا بمعنی سلیم، شرک و معصیت کی نجاستوں سے پاک دل۔”
(تفسیر احسن البیان)
✿ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی لفظ “منیب” کا استعمال ہوا ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌ۔
یقیناً ابراہیم بہت تحمل والے نرم دل اور اللہ کی جانب جھکنے والے تھے۔
(سورہ ھود: 75)
اسی طرح فرمایا ہیں:
أَفَلَمْ يَرَوْا إِلى ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ إِنْ نَشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفاً مِنَ السَّماءِ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ.
تو کیا انھوں نے اس کی طرف نہیں دیکھا جو آسمان و زمین میں سے ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے، اگر ہم چاہیں انھیں زمین میں دھنسا دیں، یا ان پر آسمان سے کچھ ٹکڑے گرا دیں۔ یقینا اس میں ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے ضرور ایک نشانی ہے۔ (سورہ سبا : 9)
نیز فرمایا ہیں:
وَالْأَرْضَ مَدَدْناها وَأَلْقَيْنا فِيها رَواسِيَ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ۔ تَبْصِرَةً وَذِكْرى لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ۔
اور ہم نے زمین کو بچھا دیا ہے، اس میں پہاڑ گاڑ دیئے ہیں اور اس میں قسم قسم کی خوشنما چیزیں اگا دی ہیں، تاکہ ہر رجوع کرنے والے بندے کے لیے بینائی اور دانائی کا ذریعہ ہو۔
(سورہ ق : 7 -8)
مفسرین نے ان آیات میں منیب کے مختلف معانی ذکر کیے ہیں:
امام قتادہ سے مروی ہے:
منیب یعنی توبہ کرنے والا۔
تفسیر ابن کثیر: 6/ 438)
“اللہ کی اطاعت کی طرف رجوع کرنے والا اور اس کی قدرت میں غور وخوض کرنے والا۔”
(زاد المسیر: 4/ 158)
اللہ تعالی کا فرمان بردار، ڈرنے والے اور بار بار اس کی طرف رجوع کرنے والا۔
(تفسير ابن كثير : 7/ 370)
“خوف ورجاء اور محبت کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونے والا اور اس کے داعی کی بات قبول کرنے والا۔”
(تيسیر الكريم الرحمن فی کلام المنان للسعدی)
خلاصہ :
منیب کا معنی کے متعلق بیان کیا گیا کہ :
1۔ جو تنہائی میں اپنے گناہ یاد کر کے استغفار کرے۔
2۔ خوف ورجاء اور محبت سے اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اسی کی طرف متوجہ۔
3۔ مخلص۔
4۔ معصیتِ الہی سے اطاعت کی طرف پلٹنے والا، اطاعت گزار۔
5۔ گناہ کا اعتراف کر کے ائندہ نہ کرنے کا عزم کرنے والا۔
6۔ قلبِ سلیم کے معنی میں شرک ومعصیت سے پاک۔
7۔ اللہ سے دل لگانے والا، ہر وقت اللہ سے لو لگانے والا۔
حافظ محمد طاھر