ہائے دلِ بے مراد غم سے بوجھل ہوگیا…لاہور سے فیصل آباد پہنچا تو اطلاع ملی کہ حضرت قاری صاحب حفظہ اللہ سے رحمہ اللہ ہوگئے ہیں … آہ فآہ ثم آہ۔
ع : جو بادہ کَش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

لمبے تڑنگے، حسین و جميل اور خوش مزاج و خوش پوشاک ہمارے قاری صاحب  اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے والے تانا شاہی مزاج کے حامل تھے۔ دل کیا تو خاموشی سے دیکھے بغیر پاس سے گزر گئے اور جی چاہا تو شوخی و شرارت بھرے لہجے میں سلام کے بعد کوئی فقرہ اچھال دیا یا کوئی حکم دے دیا۔

خوابوں کی طرح تھا,نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ علم ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا

الجھا ہوا ایسا کہ کبھی کھل نہیں پایا
سلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا

کبھی موج میں ہوتے تو یادوں کی گٹھری کھول کر بیٹھ جاتے۔ لکھوی خاندان اور دیگر اہل حدیث علماء کرام کے چشم دید واقعات سناتے یا پھر اپنے اسفار کے قصے سناتے۔ مزاحیہ واقعہ سناتے سناتے سامعین سے پہلے خود ہی ہنسنا شروع کر دیتے۔ اپنی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ چہرے پر بچوں سی معصومیت کا غلبہ دیکھ کر میری ہنسی نکل جاتی اور وہ کسی ضدی بچے کی طرح اپنی رائے پر یوں دلائل دیتے کہ ان کے بارے میں دل میں بدگمانی کا خاتمہ ہو جاتا۔
ایک مرتبہ غلطی سے ایک مشہور ٹک ٹاک سٹار سے اپنی مسجد کے لیے درس کا وقت لے لیا۔ ہم نے سارے فیصل آباد میں اشتہار بازی کردی۔ ایک دن پہلے موصوف نے فون کر کے کہا کہ میں نے تو مغرب کے بعد کا وقت دیا ہوا ہے۔ ہم نے بہت کہا کہ نہیں حضور بعد از عشاء ہے۔ قصہ مختصر سٹار صاحب نے دو ٹوک انکار کر دیا۔ فاروق الرحمن یزدانی صاحب حفظہ اللہ نے کہا آپ قاری نوید الحسن لکھوی صاحب سے بات کریں۔ قاری صاحب رحمہ اللہ کو بتایا تو سید سبطین شاہ نقوی صاحب حفظہ اللہ کو اسی وقت فون کیا اور ساری صورتحال گوش گزار کی اور درس کا وقت مانگا۔ شاہ صاحب نے ایک گھنٹے کی ہامی بھری اور وقت پر تشریف لائے۔ قاری صاحب رحمہ اللہ بنفس نفیس تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا کہ تلاوت فرمائیں۔ نہایت عمدہ تلاوت کی۔ میں نے خدمت کرنا چاہی تو ناراضی کا اظہار کیا۔ قاری صاحب داغ مفارقت دے گئے تو سوچ رہا ہوں کہ ہر پروگرام میں سب سے آخر آنے والے کو آخر جانے میں کیا جلدی تھی۔ اب چوہدری محمد یاسین ظفر صاحب حفظہ اللہ کیوں کر کہا کریں گے: “قاری نوید الحسن کتھے نیں…او جہانگیر قاری صاحب نوں اطلاع سی؟ تو کہا جائے: یزدانی صاحب دے کمرے نا ستے ہون۔”
آہ فآہ ثم آہ
رہنے کو صدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
اک بار تو خود موت بھی گھبرا گئی ہوگی
یوں موت کو سینے سے لگاتا نہیں کوئی

 حافظ عبد العزيز آزاد