مجھے ایک پارہ پڑھنے میں تقریبا 25 سے 30 منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سستانے اور تکان اتارنے کو مَن چاہتا ہے۔ رمضان المبارک میں ایک پارے کو ایک دن میں کم از کم 8 مرتبہ مختلف اوقات میں پڑھنا ہوتا ہے، روزے کی حالت میں یہ کام کس قدر مشکل ہے صرف حافظِ قرآن ہی جانتا ہے۔
ہر حافظ و قاری صاحب کا معاملہ تقریباً موافق یا کچھ کچھ مخالف ہے۔
کچھ لوگ کام کی تکان اور کچھ فارغ البال، مگر مسجد میں سبھی محمود و ایاز کی طرح بھوک و پیاس اور گرمی کی شدت سے نڈھال پڑے ہوتے ہیں۔
کچھ مسجد ہی کی موٹر کو سانس دیئے بغیر ماء معین پر لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔
کچھ دست مال، رومال اور شال بھگوئی سے اعضائے رئیسہ کو راحت و سکون فراہم کرتے ہیں۔
کچھ نسبتاً تیز چلنے والے پنکھے کو ملجا اور ماوی بناتے ہیں، کچھ یو پی ایس کے حساب سے تقسیم بندی کرتے ہیں۔
اسی اثنا میں مسجد کے ایک کونے سے گنگناہٹ سنائی دے رہی ہوتی ہے، جو لوگوں کے آرام کا مکمل خیال رکھے ہوئے ہوتی ہے، حالاں حفاظ کیلئے قدرے بلند پڑھنا اہم ترین ہوتا ہے۔
ایک فکر ہمہ وقت لاحق رہتا ہے، منزل پختہ ہو تاکہ سرِ رات تنقید کا سامنا نہ ہو۔
ذہن، دماغ اور اعضاء مستعمل گھٹنے اور ٹخنے زیادہ کھپت کا شکار ہوتے ہیں، مگر حافظ صاحب نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔
نماز تراویح سے پہلے کا اضطراب بھی علاوہ قاری صاحب کے کوئی دوسرا نہیں جان سکتا، پارے کی ترتیب، رکوع و سجود، تسبیحات کا لحاظ اور اقتداء میں موجود خواتین و حضرات کے جمِّ غفیر سے حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔
پھر اللہ کریم حوصلہ بخشتے ہیں اور جملہ معاملات رواں ہو جاتے ہیں۔
جہاں تک تعلق ہے بھول کا تو بھول انسانی فطرت میں شامل ہے، شاید انسان کی پہچان ہی بھول ہے! یاد کیجیے معاملہ بابائے آدم علیہ سلام ۔۔۔!
جیسے حاجی صاحب، شیخ صاحب، منتظمین و معترضین انسان ہیں ویسے ہی قاری صاحب انسان ہیں!
حاجی صاحب کا سارا دن اے سی کی ٹھنڈی اور دلربا ہواؤں سے محظوظ ہوتے گزر گیا اور رات کو قاری صاحب پہ غضبناکی کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔
متعجبانہ انداز میں سوالات ہوتے ہیں؛
قاری صاحب آج پارہ یاد نہیں کیا؟!
قاری صاحب آج خیر نہیں لگتی؟!
قاری صاحب آج کہیں گئے تھے؟!
قاری صاحب بے چارے خاموشی کو غنیمت جانتے ہیں اور لب بستہ بیٹھ جاتے ہیں۔
[[ کچھ باتیں جو میرے سمیت تمام قراء کرام کو ملحوظ رکھنی چاہیے۔ ]]
● خالصتاً خوشنودی رب العالمین کی خاطر نماز تراویح پڑھائیں۔
● پوری محنت اور لگن کے ساتھ قرآن مجید کو یاد کریں اور لوگوں کو سنائیں۔
● بے لوث اور بے باکی کو شیوہ بنائیں۔
● تمام تر امیدیں رب العالمین سے رکھیں۔
● پڑھائی کے اوقات میں لمبی اور بے فائدہ ملاقاتوں سے اجتناب کریں۔
● نظام الاوقات مرتب کریں اور انہیں مکمل رائج کریں۔
● قناعت گزار بن جائیں، رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو گا۔
[[ کچھ باتیں انتظامیہ مسجد کیلئے: ]]
● آپ الحمدللہ معزز و مکرم ہیں، اپنی عزت و اکرام میں مزید اضافہ کریں۔
● نمازیوں کیلئے آسانی و سہولتیں پیدا کریں تنگی و صعوبتیں پیدا نہ کریں۔
● قاری صاحب کی عزت آپ کی عزت ہے، اس لیے کوئی بھی ایسا فعل جس سے فریقین میں سے کسی ایک کی بھی عزت مجروح ہو، اس سے گریز کریں۔
● عوام الناس میں بعض ایسے ضعیف القلب لوگ بھی ہوتے ہیں جو مرچ مصالحے لگانے کے ماہر ہوتے ہیں ان پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔
● جہاں اصلاح ممکن ہے وہاں اصلاح اس انداز سے کریں کہ آپ، قاری صاحب اور اللہ کے علاوہ کوئی تیسرا نہ ہو۔
● آپ کا عقیدہ ہے کہ قاری صاحب نے قرآن مجید رضائے الہی کیلئے سنایا ہے، ممکن ہے اس معاملے میں آپ سے زیادہ مضبوط عقیدہ قاری صاحب کا ہو۔
● اب بات ہے محترم قاری صاحب کی خدمت کی، قاری صاحب تو نہیں کہیں گے کہ ان کی خدمت کیجائے!
اور انتظامیہ یہ کہہ دے گی جماعت کمزور ہے!
چلیں جتنی کوئی خدمت کر سکتا ہے کردے۔!
یہ پرانی باتیں ہیں ان باتوں کو اب چھوڑ دینا چاہیے۔
● اور محترم قاری صاحب کو ہرگز ہرگز اس میں ملوث نہ کریں، اعلان کر دیا جائے کہ جو بھی خدمت کرنا چاہتا ہے وہ ہمیں دے اور ہم باندازِ احسن قاری صاحب کے سپرد کریں گے۔
نوٹ : اس کو خاص نہ سمجھیں پیغام عام ہے۔

عبدالقیوم فرُّخ