سوال (1150)

ایک شخص جو وڈیرے سے نظام کی سی سوچ رکھتا تھا وہ اس بات پر بضد تھا کہ اپنے بھائی کی بیٹی سے نکاح کروانا چاھتا ہے اور بات پر وہ انکار کرتے تو انہیں دھمکیا ں اور ذہنی ٹارچر کرتا کیس درج کروایا تو کچھ عرصہ میں وہ رہا ہونے میں کامیاب رہا ہے ، بہرکیف ، اس بات پر بہت ساری پنچائتیں ہوتی رہیں لیکن وہ کسی کی نہ سنتا تھا اس شدد اور غیر شرعی سوچ کی وجہ سے اہل خانہ کس اذیت سے گزرے ہوں گے اس کا اندازہ ہر کوئی بآسانی لگا سکتا ہے۔
اسی دوران وقت گزرتا رہا اور اس گھر میں سے ایک لڑکا جو جوان ہوا اور اس اذیت سے نکلنے کے لیے بہت سے راستے اختیار کیے مگر کوئی کار آمد نہ رہا آخر اس لڑکے نے چچا کے خوف ہی سے اسے قتل کردیا ہے ، ہمارے عدالتی نظام نے تو اسے قاتل قرار دیا ہے ۔
ایسے قتل کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جواب

اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے کہ قتل ایک سنگین جرم ہے ، لیکن شریعت اسلامیہ کوئی بھی فیصلہ اندھا دہند نہیں کرتی ہے ، دیکھا جائے کہ قتل کے محرکات کیا تھے ، ظاہری سی بات ہے کہ اگر ایسی بات ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو کم سے کم قاتل کو قصاصا قتل نہیں کیا جا سکتا ہے ، اس کا تعلق جوڈیشری کے ساتھ ہے ، میں نہیں سمجھتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قاضی یہ تفصیل پڑھنے کے بعد قصاصا قتل کا حکم دے ، باقی معاشرے میں ان چیزوں کو روکنے کے لیے کوئی تعزیرا سزا دی جا سکتی ہے ۔

فضیلۃ العالم عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ