مشرکینِ عرب کا کہنا تھا کہ “لو نشاء لقلنا مثل هذا” یعنی ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں. (سورہ انفال،٣١)
اسکے علاوہ کئی ایک طریقوں سے قرآن مجید کا انکار کرتے تھے.. طرح طرح کی پھبتیاں کستے تھے.
مگر کفر و انکار میں اس قدر لجاجت کے باوجود انکا اپنا اقرار تھا کہ:
١ : ان هذا إلا سحر مبين (سوره يونس،٢). یعنی یہ تو بالکل جادوئی بیان ہے.. اگرچہ یہ بات انکار کے طور پر کہتے تھے مگر یہ بات انکی طرف سے کھلا اقرار ہے کہ اس کتاب کا بیان گویا سحر میں مبتلا کر دینے والا ہے.
٢ : اسی طرح انکا کہنا تھا کہ “لا تسمعوا لهذا القرآن و الغوا فيه لعلكم تغلبون” (سوره فصلت،٢٦).
ترجمہ : اس قرآن کو ہرگز نا سنو اور جب یہ سنایا جائے تو اس میں خلل ڈالو،شاید کہ اسطرح تم غالب آ جاؤ.
یہ ایک اور شہادت ہے کہ از خود منکرینِ قرآن یہ سمجھتے تھے کہ اگر قرآن کو سننا شروع کر دیا تو یہ اثر انداز ہونے والی کلام ہے.
_ ان مشرکینِ عرب سے اہل کتاب کا حال بھی مختلف نہیں تھا.. ان پر بھی قرآن مجید نے براہ راست اثرات مرتب کئے جنہیں قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے کہ :
١ : “و اذا سمعوا ما انزل إلى الرسول ترى اعينهم تفيض من الدمع مما عرفوا من الحق” (سوره مائدہ،٨٣).
ترجمہ : جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے
تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے انکی آنکھیں آنسوؤں سے تَر ہو جاتی ہیں.
٢ : ان الذين اوتوا العلم من قبله اذا يتلى عليهم يخرون للاذقان سجدا و يقولون سبحان ربنا ان كان وعد ربنا لمفعولا و يخرون للاذقان يبكون و يزيدهم خشوعا. (سوره إسراء،١٠٩).
جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں.. اور پکار اٹھتے ہیں “پاک ہے ہمارا رب، اُس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا”.. اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر اُن کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے.
_ ان دونوں گروہوں کے حالات ذکر کرنے کے علاوہ قرآن مجید کی عمومی خصوصیت کے طور پر بھی یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ :
“الله نزل احسن الحديث كتابا متشابها مثانى تقشعر منه جلود الذين يخشون ربهم ثم تلين جلودهم و قلوبهم إلى ذكر الله”. (سوره زمر،٢٣).
اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں.. اُسے سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں.
اسی طرح جن و انس،ہر دو طرح کی مخلوق کے مشاعر و وجدان کو اس کتاب نے لمس کیا ہے اور یہ کہنے پر مجبور کیا ہے کہ :
انا سمعنا قرآنا عجبا. (سوره جن،١).
ہم نے ایسا قرآن سنا ہے جو عجیب یعنی انسانی معمول و قدرت سے ہٹ کر ہے.
قرآن مجید کے یہ تمام بیانات شاہد ہیں کہ یہ کتاب اپنی ایسی تاثیر رکھتی ہے جو اسکے ماننے والوں تک محدود نہیں ہے بلکہ مومن و منکر،مسلم و غیر مسلم.. ہر ایک کے دل و دماغ تک پہنچ کر اسکے جذبات،شعور اور لا شعور کو جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے.. اور عملاً اس کتاب نے اپنے ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کو برابر متاثر کر کے دکھایا ہے۔
علاوہ ازیں یہ صرف قرآن مجید کے اپنے بیانات نہیں ہیں بلکہ بیشمار تاریخی واقعات اس بات کی تائید میں کھڑے ہیں کہ قران مجید کے زیرِ اثر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا جن میں ایک تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے زمانہ نبوت میں اسلام قبول کیا اور شرفِ صحابیت سے متصف ہوئے.
قرآن مجید کی تاثیر کا یہ پہلو آج بھی اس کتاب کو اسی طرح معجز بنا دیتا ہے جیسے یہ کتاب اپنے نزول کے وقت منکرینِ حق کو چیلنج کر رہی تھی.
لہذا وہ لوگ قطعاً عقلمند نہیں ہو سکتے جو اس کتاب کو مٹانے کا عزم رکھتے ہوں یا یہ سمجھتے ہوں کہ اسے زیر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.

خزیمہ ظاھری