سوال (1059)

شیخ صاحب سوال یہ ہے کہ امام صاحب تراویح پڑھا رہے ہوں اور ان سے جیسے واؤ یا فاء کی غلطی رہ جائے جیسے واما کی جگہ فاما پڑھ لیا یا یاء اور تاء کی غلطی رہ جائے جیسے یعلمون کی جگہ تعلمون پڑھ لیا اور پیچھے سامع بھی نہ بتائے تو امام اور سامع اس پر گناہگار ہوں گے یا نہیں؟

جواب

اگر جان بوجھ کر غلطی چھوڑیں گے تو گناہ گار ہیں، لیکن اگر سامع شک میں پڑ جائے اور امام کو بتا نہ سکے، تو اس میں کوئی حرج نہیں. ان شاءاللہ۔
کیونکہ لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعہا.
جو طاقت و استطاعت سے باہر ہے، اس پر مواخذہ نہیں ہو گا.
صحابی رسول مُسَوَّرِ بن يَزيد المَالِكِي رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

«شَهِدْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ فَتَرَكَ شَيْئًا لَمْ يَقْرَأْهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ تَرَكْتَ آيَةَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: هَلَّا أَذْكَرْتَنِيهَا». [سنن أبي داود:907 وحسنه الألباني وغيره، وانظر: فضل الرحيم الودود:10/30]

’میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوا، دورانِ قراءت آپ نے کوئی آیت چھوڑ دی تو بعد میں ایک آدمی نے آپ سے عرض کی کہ اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم آپ نے فلاں فلاں آیات چھوڑ دی ہیں! آپ نے فرمایا: کہ آپ نے مجھے یاد کیوں نہیں کروایا تھا؟’۔
بعض روایات میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ اس صحابی نے کہا کہ میں نے سمجھا ہے کہ شاید وہ آیات منسوخ ہو گئی ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
اس حدیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے کہ اگر لاشعوری طور پر قرآن کریم پڑھتے ہوئے کوئی غلطی رہ جائے اور پیچھے سے کوئی بتا نہ سکے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن جان بوجھ کر خاموش رہنا جائز نہیں!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ