رسول اللہ ﷺ سے محبت کے ثمرات و فوائد تو بہت زیادہ ہیں، لیکن اگر انہیں جامع و مختصر دو شقوں میں بیان کیا جائے کہ ایک تو فائدہ عاجلہ ہے جو جلد انسان کو حاصل ہو جاتا ہے اور دوسرا فائدہ آجلہ ہے جو انجامِ کار کے اعتبار سے منتہائے فوز وفلاح ہے۔
جلد حاصل ہونے والے فائدے کے متعلق سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث راہنمائی کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

«ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ : مَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا،…إلخ»

’’جس شخص میں تین چیزیں ہوں وہ ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس پا لیتا ہے: پہلی یہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اسے سب سے بڑھ کر محبوب ہوں…إلخ۔‘‘ (صحیح بخاری : 16، صحیح مسلم: 43)
حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦ھ) فرماتے ہیں :
’’علماء کا کہنا ہے کہ ایمان کی مٹھاس کا مطلب اطاعتِ الہی کی لذت محسوس کرنا، اللہ و اس کے رسول کی رضا میں مشقت کو برداشت کرنا، دنیاوی نفع پر اسے ترجیح دینا ہے اور بندے کا اپنے رب سبحانہ و تعالی کی اطاعت گزاری اور اس کی مخالفت کے ترک کے ذریعے اس سے محبت کرنا اور اسی انداز سے رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھنا ہے۔‘‘ (شرح مسلم : 2/ 12)
شیخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہاں مٹھاس سے مراد چینی یا شہد کی مٹھاس نہیں ہے بلکہ یہ مٹھاس ہر میٹھی چیز سے بڑھ کر ہے، ایسی مٹھاس کہ جسے انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، ایسی عظیم لذت کے اس کے برابر کوئی دوسری چیز نہیں۔ اس میں انسان شرحِ صدر، نیکی کی رغبت اور اہلِ خیر سے محبت کو محسوس کرتا ہے اور اس کی شیرینی کو وہی جان سکتا ہے جس نے بعد از محرومی اسے چکھا ہو۔‘‘ (شرح ریاض الصالحين : 3/ 258)
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت سارے جہاں سے زیادہ ہونی چاہیے۔ جس میں اس محبت کی زیادتی نہیں ہے، گو اسے کچھ محبت ہو تو وہ لذتِ ایمان سے بے نصیب ہے۔ اس محبت کی شناخت یوں ہوتی ہے کہ ایک طرف مثلاً اللہ یا رسول یا دونوں کا حکم ہو اور دوسری طرف نفس یا اہل یا مال یا دنیا یا اولاد یا والدین یا اقارب یا وطن یا احباب کی محبت مقابلہ کرے اور یہ شخص ان سب کی محبت پر خاک ڈال کر اس حکم کو نہایت بشاشت کے ساتھ مان لے اور کر گزرے تو جانو کہ وہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ چاہتا ہے، لیکن اگر ان دونوں کے مقابلے میں دوسروں کی طرف رخ کیا تو سمجھو کہ احبّیت سے اس کو بالکل اجنبیت ہے، خصوصاً جب اس کے دل میں اس ترجیح بلا مرجح کا کچھ دھڑکا بھی نہ ہو کہ اس وقت تو اصل محبت کے وجود میں بھی، اگرچہ قدر قلیل ہو، شک پڑتا ہے۔‘‘
(دعوۃ الداع إلی إیثار الاتباع علی الابتداع، مجموعہ رسائل عقیدہ : 2/ 147)
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اس سے معلوم ہوا کہ جیسے منہ کھانے پینے سے شاد کام ہوتا ہے اسی طرح دل ایمان سے حلاوت ومٹھاس محسوس کرتا ہے۔ بلکہ ایمان کی یہ حلاوت کھانے پینے کی مٹھاس سے کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘ (تفسیر سورہ الصافات، ص : 129)
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ اپنے شیخ محدث العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے متعلق بیان کرتے ہیں :
’’باب حلاوۃ الإیمان‘‘ کے تحت گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: ’’ایمان کی مٹھاس حقیقتاً و حساً بھی ہوتی ہے اور اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب سیئات سے نفرت اور حسنات پر رغبت ہو، اس سے روح میں تازگی اور لطافت پیدا ہو جاتی ہے اور مومنِ صادق کے دل میں اعمالِ صالحہ کی بنا پر ایک نور پیدا ہو جاتا ہے اور اسے سیئات کی بدبو اور حسنات کی خوشبو کا بھی بسا اوقات احساس ہونے لگتا ہے ’’ذلک فضل اللّٰه یؤتیہ من یشاء‘‘ اس سلسلے میں حضرت مرحوم نے متعدد دلائل ذکر فرمائے۔۔۔حضرت یہ تفصیل بیان فرما رہے تھے کہ راقم آثم نے جسارت کرتے ہوئے عرض کیا: ’’کیا حسی طور پر اب بھی اس کا احساس ہو سکتا ہے؟‘‘ تو آپ نے فرمایا: ’’نبی اکرم ﷺ کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی بسا اوقات اس کا احساس ہوتا تھا اور یہ دراصل اللہ تعالی کی عنایت اور کرم نوازی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی اپنا تعلق اللہ تعالی سے صحیح طور پر استوار کرے تو اس کا احساس ہو سکتا ہے۔‘‘ میں نے پھر عرض کیا: ’’کیا گناہ کی کیفیت اور نوعیت کے اعتبار سے بدبو کی کیفیت میں بھی فرق ہوتا ہے یا نہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، گناہ کی نوعیت کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے۔‘‘ اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ’’زانی کے جسم سے ایسی بدبو آتی ہے جیسے حقہ پینے والے کے منہ سے آتی ہے۔‘‘ جس سے قارئین کرام ہمارے حضرت مرحوم کی روحانی قوت اور تعلق باللہ کا اندازہ کر سکتے ہیں۔‘‘
(مقالاتِ اثری : 4/ 384 – 385)
اس حدیث میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے کے حسنِ خاتمہ اور تا دمِ مرگ ایمان پر ثابت قدمی کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کیوں کہ جب کسی دل میں ایمان کی لَذت و آشنائی قرار پکڑ جائے پھر باہر نہیں نکلتی۔ (مرقاۃ المفاتيح : 1/ 74)
دوسرا فائدہ آجلہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کے سبب بندے کو جنت میں آپ کی مرافقت و ہمراہی نصیب ہو گی، جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی ؟ آپ ﷺ نے پوچھا : ’’آپ نے اس کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے ؟‘‘ اس نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کی محبت ۔ آپ نے فرمایا :’’آپ کو جس سے محبت ہوگی اسی کے ساتھ ہو گے ۔‘‘ (صحیح بخاری : 6167، صحیح مسلم : 2639/ 6710)
اس حدیث میں معیت سے مراد جہنم سے نجات اور جنت کا داخلہ ہے، یعنی رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنے والا جنت میں داخلے کے اعتبار سے آپ کے ساتھ ہو گا، اگرچہ درجات میں تفاوت ہو گا۔ (فتح الباری : 14/ 36)

(حافظ محمد طاھر)