اُس منظر کی ایمان آفریں دل کشی کو الفاظ کا روپ دینا، کارِ محال ہے کہ جب نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی کے برتن میں عین اسی جگہ اپنے لبِ مبارک رکھ کر پانی پیتے تھے جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مبارک ہونٹ رکھ کر پانی پیا ہوتا تھا، اُس منظر کی رعنائی اور زیبائی کو بیان کرنا ممکن ہی نہیں کہ جب نبیِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی دل بستگی کے لیے، اُن کے ساتھ دوڑ لگائی تھی اور حقیقی مَحبّتوں سے شاداب وہ منظر بھی بیان کرنا ناممکن ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اُن کا ذکر کرتے ہوئے نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو پڑتے اور فرماتے کہ جب لوگوں نے ایمان لانے سے انکار کیا، تب خدیجہ ( رضی اللہ عنہا ) مجھ پر ایمان لائِیں، جب لوگوں نے مجھے معاش سے مجبور کیا تو اُنھوں نے میری مدد کی۔چشمِ فلک نے ایک اور ایمانی جاذبیت سے مزین ایسا منظر بھی دیکھا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے تشریف لانے پر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو جاتے اور اپنی چادر مبارک اُن کے بیٹھنے کے لیے پیش کر دیتے۔عورت کے حقوق کا یہ عملی نمونہ، کائنات کے سب سے افضل انسان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش کیا، یہی نہیں، عورتوں کی تکریم اور تعظیم کے متعلق اس طرح کے سیکڑوں واقعات احادیث میں موجود ہیں۔آج بھی جن گھرانوں میں اسلام کی تفہیم موجود ہے، اُن کے دَر و دیوار سے چاہتوں کے نشاط انگیز جھونکے اور دل گداز لَپٹ آتی ہے۔” ہستی مل ہستی “ کا بہت عمدہ شعر ہے:-
کہیں خلوص، کہیں دوستی، کہیں پہ وفا
بڑے قرینے سے گھر کو سجا کے رکھتے ہیں
آزادیِ نسواں کی دعوے دار تنظیمیں یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اسلام سے ہٹ کر جب بھی عورت کے کسی حق کی بات کی جاتی ہے تو پھر اسے یورپ کے ساحلِ سمندر پر نظر آنے والے بے ہودہ حقوق سے مماثل اور مترادف ہی قرار دیا جائے گا۔پاکستان کی نظریاتی سرحدوں اور اسلامی تہذیب و تمدّن میں حیا باختگی پر مبنی کسی ” حق “ کی کوئی گنجایش سرے سے موجود ہی نہیں اور یہاں کے 22 کروڑ عوام ایسے کسی ” حق “ کو حق سمجھتے ہی نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے جو حقوق خواتین کو دیے ہیں، ان میں سے بے شمار حقوق یہاں صائب انداز میں ادا نہیں کیے جا رہے، لیکن اگر آپ انفرادی طور پر مختلف طبقات کا جائزہ لیں گے تو پھر عورتیں ہی نہیں بلکہ مَردوں، بچوں اور بوڑھوں سمیت ہر طبقہ ہی اپنی مظلومیت کا رونا روتا نظر آئے گا۔اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اسلام نے ایسے تمام حقوق کا اتمام کر دیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ انسانوں نے اسے نافذ کرنے میں تساہل اور تغافل برتا ہے۔
یہاں عورت پر تشدّد ہوتا ہے تو مَردوں پر بھی ظلم ہوتا ہے، ممکن ہے عورتوں پر تشدّد کی شرح کچھ زیادہ ہو مگر ایسی خبریں بھی اکثر پڑھنے میں آتی ہیں کہ بیوی نے آشنا کے ساتھ مل کر خاوند کو قتل کر ڈالا، یہی نہیں بلکہ عورتیں اپنے ہی بچوں تک کو ذبح کر ڈالتی ہیں، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تمام عورتیں ہی ایسی ہیں۔پاکستان ہی نہیں، ایسے جرائم کسی بھی معاشرے میں رُونما ہو سکتے ہیں، اس لیے کہ کوئی بھی معاشرہ جتنا بھی تہذیب یافتہ ہو، کُلّی طور پر جرائم سے پاک نہیں ہُوا کرتا۔سخت قوانین اور عدل و انصاف کی بروقت فراہمی سے جرائم کی شرح کم ضرور کی جا سکتی ہے، ختم نہیں کی جا سکتی۔آپ مغرب اور یورپ کا مشاہدہ کر لیں، عورت وہاں بھی مظلوم ہی دِکھائی دے گی۔2017 ء میں فرانس میں 601 عورتوں کو تشدّد کے بعد قتل کر دیا گیا اور 2021 ء میں بھی 113 فرانسیسی عورتیں موت کے منہ میں دھکیل دی گئیں، آج بھی یورپی یونین کی ایک تہائی لڑکیاں 15 سال کی عمر تک جسمانی تشدّد کی شکار ہو جاتی ہیں، لیکن اس لیے بھی عورتوں پر تشدد اور ظلم و جبر پر سکوت اختیار نہیں کیا جا سکتا کہ چوں کہ یورپ اور مغرب کی عورت پر ظلم ہو رہا ہے تو یہاں پر یہ ظلم کون سے اچنبھے کی بات ہے، نہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے، ظلم تو کسی طبقے پر بھی نہیں ہونا چاہیے، یہ جبر اور زیادتی تو جانوروں پر بھی نہیں کی جانی چاہیے، عورتوں کو تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نازک آبگینوں سے تشبیہہ دی ہے، سو عورتوں پر تشدّد یا ظلم کی اسلام میں سرے سے کوئی گنجایش ہی موجود نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ عورتوں کے حقوق کے نام نہاد ٹھیکیدار مغرب میں عورتوں کے حقوق کی سب سے زیادہ پامالی ہو رہی ہے، وہ یورپی لوگ، عورت کو بدن سے آگے دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے، حمیدہ شاہین کے بہ قول :-
کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو؟
سب کی آنکھیں گِروی ہیں اس نگری میں
ہمارا اور مغرب و یورپ کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ جن افعال اور کردار کو وہ لوگ ” حقوق “ سے تعبیر کرتے ہیں، ہم انھیں عورتوں کی توہین سمجھتے ہیں اور جو حقوق اسلام نے خواتین کے لیے مختص کر دیے ہیں، مغربی لوگ ان پر فکر اور تدبّر کرنے کی بجائے انھیں قدغن قرار دیتے ہیں۔وہ لوگ یورپ کے ساحلِ سمندر پر برہنہ پڑی عورتوں کے مہیب فعل کو آزادیِ نسواں کا نام دیتے ہیں، جب کہ اسلام عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی جیسے اعلا و ارفع مقدّس رشتوں میں پرو کر حُسنِ اخلاق اور پیار و محبت سے مزیّن معاشرے کی تخلیق کرتا ہے۔ہمارے ہاں کی عورت اگر اپنی زبان کو قابو میں رکھ لے تو یہ کائنات کی سب سے خوب صورت مخلوق ہے۔منیر نیازی نے کہا تھا۔
شہر کا تبدیل ہونا، شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دَم سے ہیں
عورت کا جنّت میں جانا بھی بڑا ہی آسان ہے، اگر سمجھیں۔۔اگر جانیں تو ابن ماجہ میں موجود یہ حدیث خواتین کے لیے بہت بڑی نصیحت اور بشارت ہے ۔” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم نے فرمایا، عورت جب پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو، اپنے ناموس و عزت کی حفاظت کرتی ہو اور شوہر کی اطاعت کرتی ہو تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔