سوال (5874)

اگر دو تین گھنٹوں کا سفر ہو اور دوران سفر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو مثلا عصر کی اور واپسی تک مغرب کا ٹائم ہو جائے تو عصر کی نماز کب پڑھیں؟

جواب

1. مذکورہ صورت میں جمیع بین الصلاتین کی صورت اپنانی چاہیے۔[مسلم:1631]
جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح ثابت ہے۔
سوال میں ذکر صورت میں ظہر کے ساتھ ہی عصر پڑھ کر سفر شروع کریں۔
2 اگر یہ ممکن نہیں ہوا اور سفر شروع کردیا اور نماز کے ضائع ہونے کا ڈر ہے۔ اس لیے اگر سواری پر بھی پڑھ سکتے ہیں تو پڑھ لیں۔ یہ عذر کی صورت ہے جس طرح جہاز، ٹرین کے طویل سفر میں سواری پر پڑھنے کا جواز دیا گیا ہے۔ ورنہ عام صورت میں تو فرض نماز سواری پر نہیں پڑھ سکتے۔ [بخاری: 400]
3 اگر دونوں میں سے کوئی بھی صورت ممکن نہیں تو اس صورت میں سفر مکمل ہوتے ہی فورا عصر پڑھ لیں خواہ کوئی بھی وقت ہو۔ یہ فقط اضطراری صورت کے پیش نظر ہے۔ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

سائل: کتنا سفر ہو تو نماز قصر کرنا جائز ہے اور مسافر کے لیے کیا حکم ہے کہ کب تک نماز قصر کرے؟
جواب: مسافت متعین نہیں۔ عرف، علاقہ میں جتنی مسافت کو سفر شمار کیا جاتا اس پر قصر کرلیں۔
جس طرح روزہ چھوڑنے کے لیے بیماری کا ذکر ہے۔[البقرہ: 184]
لیکن بیماری کی نوعیت کا تعین نہیں۔ لہذا شہر سے باہر 18,20 یا جتنے بھی کلو میٹر کو سفر کیا جاتا ہے اس پر قصر کرلیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

سائل: اگر شہر کے اندر ہی اندر اتنا صرف کرلیں مثلاً شہر کراچی ہے بڑا ہے اور شہر میں عرف ہے 10 کلومیٹر صرف کرنا اور 10 کلومیٹر صرف کرکے ہم اس ہی شہر میں رہیں تو تب بھی قصر کریں گے ؟ عام طور پر علماء 22 کلومیٹر بیان کرتے ہیں تو کیا یہ مسافت ٹھیک نہیں ہے؟ اپنا عرف دیکھیں گے؟
جواب: بڑے شہروں میں دس کلو میٹر شہر کے اندر رہنے کو سفر شمار ہرگز نہیں کیا جاتا۔
عرف میں دیکھ لیا جائے کہ جو مسافت آپنے طے کرنی ہے خواہ وہ کوئی بھی ہو اسے اگر تو حقیقتا باقاعدہ سفر شمار کیا جاتا ہے تو اس پر قصر کرلیں ورنہ پوری پڑھ لیں۔
شہر سے 22 کلومیٹر کا استدلال تین فرسخ والی حدیث سے ہے۔ [مسلم: 1538]
اس حدیث کو قصر کی معین حد بندی پر پیش نہیں کیا جاتا جیسا کہ حافظ خطابی رحمہ اللہ نے ذکر کیا۔
باقی اگر کسی کے لیے عرف کے مطابق تعین کرنے میں پریشانی ہو تو وہ 20, 22 کلومیٹر کو کم از کم مسافت قصر سمجھ کر عمل کرلے تو اس میں زیادہ احتیاط ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ