مل کر کسی کے پیچھے پڑنے یا اسے گھر پہنچانے میں جو ایک مزہ ہے، اس سے سرشار دوستوں ساتھیوں کو میں اس سے روکوں گا نہیں؛ “سوشل میڈیا” آخر ہے کس لیے!جھٹ سے جواب دینا بھی، اگرچہ وہ جواب صحیح ہو، اکثر مسائل کا حل نہیں ہوتا۔ ہاں کسی وقت مسائل کو اور بڑھا دینے کا سبب ہو سکتا ہے
” کہ “ہم” بالکل ٹھیک جا رہے ہیں۔ ہم یعنی اس ملک کا سکہ بند مذہبی سیکٹر۔
وقت کے چیلنجز کو سمجھنا تو کیا ان پر پورا اترنے میں ہم بالکل ٹھیک اور صحیح ہیں! اور نوجوان نسل کو سمجھنے میں تو الحمد للہ کمی ہی کوئی نہیں! “حقانیت” کے ساتویں آسمان پر رہنا ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے؛ خدا جزائے خیر دے “ساحل عدیم” کو جو ہمیں اس کے مواقع فراہم کرتے ہیں؛ اور ہم اپنے اس اطمینان میں جو ہمیں اپنے بارے میں ہونا اور رہنا چاہیے اور بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ ایسی “آسان گیند” کرواتے ہیں ہمیں، کہ اس پر ہمارا زوردار “شاٹ” ہمارا سب کھویا ہوا اعتماد ہمیں واپس دلا دیتا ہے۔ ان کے دم سے، اگر کچھ تشویش لاحق ہونی بھی تھی یہاں ہمیں اپنے کردار کے معاملہ میں تو وہ الحمد للہ رفع ہو جاتی ہے!
میری نظر میں…صرف “ساحل عدیم” نہیں، اس طرح کی اور کئی آوازوں کو جو آئندہ سالوں میں بہت ہو سکتی ہیں – اگرچہ وہ اپنے مضمون اور مندرجات میں کتنی ہی غلط ہوں – مسئلے کی اَعراض symptoms کے طور پر لینا چاہیے نہ کہ تشخیص کے طور پر، اور چونک جانا چاہیے۔ جیسے ایک بچہ جو اپنی تکلیف بتانے میں بہت بہت غلطی کر جاتا ہے۔ “سیانے” نے اس پر اگر اس کو “جواب” دینے اور “چپ” کروانے کی ٹھان لی ہو تو بلاشبہ وہ اس کے بائیں ہاتھ کا کام ہوتا ہے۔ کسی دانشمند کےلیے، ایسی حالت میں بچے کی وہ “غلط بات” کہیں زیادہ لائق توجہ اور قابل شفقت ہوتی ہے بنسبت اس “صحیح جواب” کے جو سیانا اسے دینے پر تلا بیٹھا ہو۔ جبکہ اس کو نطرانداز کرنا ایک بڑے نقصان کا پیش خیمہ۔
بہرحال یہ ایک جہت ہے مسئلے کو دیکھنے کی، اس پر آپ مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں، اور “اختلاف” سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں!
“جوابات” اور “رد عمل” دے لینے سے اگر سب مسئلے حل ہوتے تو مسئلہ ہی کیا تھا۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہمارے اس “جوابات” اور “ردعمل” کی سرگرمی نے – جس میں الحمد للہ ہمارے کسی مسلک نے کوئی کمی نہیں چھوڑی! – ہمارے سینکڑوں یا شاید ہزاروں مخلص نوجوان ٹوکرے بھر بھر جہلم کے ایک ایسے شخص کو دے ڈالے جسے قرآن صحیح پڑھنا نہیں آتا۔ کیا آپ واقعتاً یہ دیکھنے پر آمادہ نہیں – اور یہ کہتے ہوئے میں معذرت خواہ ہوں – کہ اصل میں تو یہ نوجوان آپ سے بھاگنا چاہتے ہیں، وہ سارے زید بکر جو انہیں “راستے” میں مل جاتے ہیں وہ تو اس کی “وجہ” نہیں بلکہ “نتیجہ” ہے اور اس کا بھیانک ہونا آپ اپنی توضیح explanation۔ بھاگے ہوئے شخص کے ذہن پر سردست وہی چیز سوار ہوتی ہے جس سے وہ بھاگا ہوتا ہے، جہاں اس نے پناہ لی اکثر وہ اس کی حقیقت یا بھیانک پن سے آگاہ نہیں ہوتا۔ اور یہ نوجوان بیچارے تو کہاں اس سے آگاہ ہونے کی فوری استعداد رکھتے ہیں۔ یہ البتہ میرے لیے واضح ہے  کہ مسئلہ کی ’وجوہات‘ علمی سے زیادہ نفسیاتی ہیں۔ میرے اندازے میں، جہلم والے صاحب کے ’دلائل‘ کا موازنہ یہاں کے سکہ بند بیانیہ کے صحیح  و مستند دلائل کے ساتھ کرنے یا کر سکنے والے نوجوان اس بَلک bulk میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوں گے۔ ایک بڑی خلقت نے وہاں صرف “پناہ” لی ہے بغیر اس کی سطحیت کا اندازہ کیے۔ اور ’پناہ گزینی‘ ایک ہنگامی حالت کا نام! پس یہاں مسئلہ کو  ’دلائل‘ کی سطح پر لینا – میری ناقص رائے میں – مسئلے کو حل کرنے سے زیادہ اس کو الجھانے میں ممد contributive  ہو سکتا ہے۔ یہ اس نفسیاتی کیفیت کو اور زیادہ غذا فراہم کرنے والی شے ہو سکتی ہے جو ابتداءً اس فرار کا باعث بنی۔
اس تلخ نوائی پر بار بار معذرت۔ یہ ادراک کرنے میں تاخیر نہ کرنی چاہیے کہ اپنے پڑھے لکھے دین پسند نوجوان کو ہمارے بڑی تعداد میں کھونے کی وجہ یہ نہیں کہ ہم نے “دلائل” دینے میں کوئی بہت کمی رکھی ہوئی ہے۔ کم از کم، یہ اس کی سب سے بڑی وجہ نہیں ہے۔  ایک بڑی افتاد یہ ہے کہ ہمارا سکہ بند مذہبی طبقہ اس نوجوان کو، اور اس کے مسائل کو، اور اس کی دنیا کو، سمجھنے میں بہت پیچھے ہے۔ جی ہاں صرف سمجھنے میں ہی، اسے سمجھ کر اس کو راہنمائی دینے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر چلانے کی تو خیر بات ہی نہ کریں۔ یہ تو شکر کریں کہ ہمارے اس پڑھے لکھے دین پسند نوجوان کو انگریزی اچھی آنے کے باعث، مغرب میں بیٹھے بہت سے داعی آج اس کی “آن لائن” ضرورت پوری کر رہے ہیں، اور یہ اُس ’سات سمندر پار‘ راہنمائی سے ہی کچھ نہ کچھ اپنے ماحول اور اپنے زمانے میں راستہ پانے لگا ہے۔ ورنہ اگر یہیں کے داعیوں اور واعظوں پر معاملہ موقوف ہوتا تو مسئلہ اس سے بھی کہیں زیادہ سائیں سائیں کرتا جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں۔  وہ ’سات سمندر پار‘ راہنمائی جتنی بھی اچھی ہو، “لائیو” راہنمائی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ یقین کیجیے یہاں کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بہت کم “یہاں” دستیاب رہنمائی سے اپنی پیاس بجھا باتے ہیں۔ یہ ایک خلا ہے، جسے بحثوں اور فتووں سے پُر نہیں کیا جا سکتا۔

حامد کمال الدین