قارئین کرام ! سلف و صالحین کو باجماعت نماز ادا کرنا کتنا محبوب تھا وہ اس امر کا کس قدر اہتمام کرتے؟ یہ سب دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے ۔ آئین سلف کا حال ملاحظہ فرمائیں ! اور اپنا ایمان تازہ کریں ۔

نماز کے انتظار کا اجر وثواب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَا يَزَالُ الْعَبْدُ فِي صَلَاةٍ مَا كَانَ فِي مُصَلَّاهُ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ، وَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ : اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللهُمَّ ارْحَمْهُ، حَتَّى يَنْصَرِفَ، أَوْ يُحْدِثَ .

بندہ مسلسل نماز ہی میں ہوتا ہے جب تک وہ نماز کی جگہ پر نماز کے انتظار میں رہتا ہے اور فرشتے کہتے رہتے ہیں : اے اللہ ! اسے معاف فرما ! اے اللہ ! اس پر رحم فرما ! یہاں تک کہ وہ چلا جاتا ہے یا بے وضو ہو جاتا ہے۔
(صحيح مسلم : 1509)

پہلی صف میں کھڑے ہونے کا اجر
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لَاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ .

اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے اور نماز پہلی صف میں پڑھنے سے کتنا ثواب ملتا ہے۔ پھر ان کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوائے اور کوئی چارہ باقی نہ رہتا، تو البتہ اس پر قرعہ اندازی ہی کرتے اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا ثواب ملتا ہے تو اس کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے۔
(صحیح بخاری : 615)
ایک روایت کے لفظ ہیں :

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ .

اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پر صلاۃ یعنی رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے ان کے لیے صلاۃ بھیجتے ہیں یعنی ان کے حق میں دعا کرتے ہیں ۔
(سنن نسائی : 670)

باجماعت نماز پڑھنے کا اجر وثواب
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً .

جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
(صحیح بخاری : 645)

تکبیر تحریمہ پانے کے برکات
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ صَلَّى لِلَّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى، ‏‏‏‏‏‏كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ .

جس نے اللہ کی رضا کے لیے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی تو اس کے لیے دو قسم کی برات لکھی جائے گی : ایک آگ سے برات، دوسری نفاق سے برات ۔
(سنن ترمذی : 241)

عدی بن حاتم رحمہ اللہ کا شوق و جذبہ
عدي بن حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ما جاء وقت الصلاة إلا وأنا إليها بالأشواق، وما دخل وقت صلاة قط إلا وأنا لها مستعد .

جب بھی نماز کا وقت ہوا میں اس کی ادائگی کے لیے مشتاق تھا اور جب بھی نماز کا وقت ہوتا ہے میں اس کے لیے تیار ہوتا ہوں ۔
[الزهد1/165]
ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں :

ما أقيمت الصلاة منذ أسلمت إلا وأنا على وضوء .

میں نے جب سے اسلام لایا نماز کھڑی ہونے کی وقت با وضو ہوتا ہوں ۔
(السير : 3/164)

سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی استقامت
سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

ما اذن مؤذن منذ ثلاثين سنة الا وانا فى المسجد

تیس سال کے عرصے سے مؤذن كے اذان دیتے وقت میں مسجد میں ہوتا ہوں ۔
(مصنف ابن ابی شیبة : 3522)
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں :

ما فاتتني التكبيرة الأولى منذ خمسين سنة وما نظرت في قفا رجل في الصلاة منذ خمسين سنة .

پچاس سال سے میری تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی اور نہ ہی اتنے عرصے میں کسی جماعتی کی گدی کو دیکھا ہے یعنی میں ہمیشہ پہلی صف میں کھڑا ہوتا تھا ۔
(وفيات الأعيان : 2/375)

یحی بن سعید رحمہ اللہ کی استقامت

یحی بن معین یحی بن سعید رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں :

إنه لم يفته الزوال في المسجد أربعين سنة .

چالیس سال سے مسجد میں ان کے زوال کا وقت فوت نہیں ہوا ۔
(السير : 9/181)

ربیعہ بن یزید رحمہ اللہ کی استقامت
ربیعہ بن یزید رحمہ اللہ کہتے ہیں :

ما أذن المؤذن لصلاة الظهر منذ أربعين سنة إلا وأنا في المسجد إلا أن أكون مريضًا أو مسافرًا

چالیس سال سے مؤذن کے ظہر کی آذان کے وقت میں مسجد میں ہوتا ہوں سوائے اس صورت کے کہ میں کہیں سفر پر ہوں یا مریض ہوں ۔
(السير : 5/240)

امام اعمش رحمہ اللہ کی استقامت
امام وكعي اعمش رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں :

اﺧﺘﻠﻔﺖ ﺇﻟﻴﻪ ﻗﺮﻳﺒﺎ ﻣﻦ ﺳﻨﺘﻴﻦ ﻣﺎ ﺭﺃﻳﺘﻪ ﻳﻘﻀﻲ ﺭﻛﻌﺔ ﻭﻛﺎﻥ ﻗﺮﻳﺒﺎ ﻣﻦ ﺳﺒﻌﻴﻦ ﺳﻨﺔ ﻟﻢ ﺗﻔﺘﻪ اﻟﺘﻜﺒﻴﺮﺓ اﻷﻭﻟﻰ .

میرا ان کے ہاں دو سال تک آنا جانا رہا ، میں نے انہیں کبھی (امام کے سلام پھیرنے کے بعد ) کوئی رکعت ادا کرتے نہیں دیکھا ۔ وہ تقریبا ستر برس کے تھے ، لیکن تکبیر تحریمہ ان سے نہ چھوٹتی تھی ۔
(تھذیب التھذیب : 4/224)

ابن سماعہ رحمہ اللہ کا اہتمام
ابن سماعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

مكثت أربعين سنة لم تفتني التكبيرة الأولى إلا يوم ماتت أمي فصليت خمسا و عشرين صلاة اريد التضعيف .

چالیس سال سے میری تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی سوائے اس دن کے جس دن میری والدہ کا انتقال ہوا ۔ پھر میں نے پچیس نمازیں اس نیت سے پڑھیں کہ میرے اجر میں اضافہ ہو ۔
(السير : 49/8)

سعيد رحمہ اللہ کا جماعت نکل جانے پر رونا
محمد بن المبارک صوري رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

رأيت سعيد بن عبد العزيز إذا فاتته صلاة الجماعة بكى .

میں نے سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو دیکھا جب اس سے با جماعت نمازچھوٹ جاتی تو وہ رو پڑتے ۔
(تذكرة الحفاظ : 1/161)

میمون بن مہران رحمہ اللہ کی باجماعت نماز سے محبت
میمون بن مہران رحمہ اللہ نماز کے لیے آئے تو انہیں کہا گیا : لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا :

إنا لله وإنا إليه راجعون، لفضل هذه الصلاة أحب إلي من ولاية العراق

إنا لله وإنا إليه راجعون ! یہ نماز مجھے عراق کی گورنری سے زیادہ محبوب ہے ۔
(احياء العلوم : 193/1)

حاتم الأصم رحمہ اللہ کی باجماعت نماز فوت ہونے پر افسوس
حاتم الأصم بیان کرتے ہیں :

فاتتني الصلاة في الجماعة فعزاني أبو إسحاق البخاري وحده، ولو مات لي ولد لعزاني أكثر من عشرة آلاف، لأن مصيبة الدين أهون عند الناس من مصيبة الدنيا .

میری باجماعت نماز ضایع ہوگئی تو مجھ سے صرف ابو اسحاق بخاری نے تعزیت کی ۔ اگر میرا کوئی بیٹا فوت ہو جاتا تو دس ہزار لوگ مجھ سے تعزیت کرتے کیونکہ دنیا کا نقصان لوگوں کے ہاں دین کے نقصان سے بڑھ کر ہے ۔
(مكاشفة القلوب : 364)

ابراہیم بن میمون رحمہ اللہ کا انداز
ابن معین ابراہیم بن میمون مروزی رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں : ایک سنیار تھے .

كان إذا رفع المطرقة فسمع النداء لم يردّها.

وہ اپنا کام کرتے ہوئے جب اپنا ہتھوڑا سونے یا چاندی پر مارنے کے بلند کرتے اور اوپر سے اذان کی آواز سنتے تو اسے ادھر ہی روک لیتے وہ ایک ضرب بھی نہیں لگاتے ۔
(تهذيب التهذيب : 173/1)

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کا باجماعت نماز کی تلاش
مصنف ابن ابی شيبہ میں ہے کہ :

كان حذيفة إذا فاتته الصلاة في مسجد قومه يعلق نعليه ويتبع المساجد حتى يصليها في جماعة .

. جب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی اپنی قوم کی مسجد میں باجماعت نماز چھوٹ جاتي تو آپ اپنے جوتے لٹکاتے اور دیگر مساجد میں باجماعت نماز کی تلاش میں نکل پڑتے یہاں تک کہ باجماعت نماز ادا کر لیتے ۔
(مصنف ابن ابی شیبة : 5990)

اسود بن يزيد رحمہ اللہ كے متعلق امام بخاری نقل کرتے :

کان الاسود إذا فاتته الجماعة ذهب إلي مسجد آخر .

جب ان کی باجماعت نماز فوت ہو جاتی تو کسی اور مسجد کی طرف جماعت کی تلاش میں نکل پڑتے ۔
(صحیح بخاری : 355/1)

محمد سلیمان جمالی