سوال (1254)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: يَا عَبَّاسُ يَا عَمَّاهُ أَلَا أُعْطِيكَ؟ أَلَا أَمْنَحُكَ؟ أَلا أحبوك؟ أَلَا أَفْعَلُ بِكَ عَشْرَ خِصَالٍ إِذَا أَنْتَ فَعَلْتَ ذَلِكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ ذَنْبَكَ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ قَدِيمَهُ وَحَدِيثَهُ خَطَأَهُ وَعَمْدَهُ صَغِيرَهُ وَكَبِيرَهُ سِرَّهُ وَعَلَانِيَتَهُ: أَنْ تُصَلِّيَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً. فَإِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي أَوَّلِ رَكْعَةٍ وَأَنْتَ قَائِمٌ قُلْتَ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً ثُمَّ تَرْكَعُ فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ رَاكِعٌ عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ الرُّكُوعِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ تَهْوِي سَاجِدًا فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ سَاجِدٌ عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ السُّجُودِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ تَسْجُدُ فَتَقُولُهَا عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ فَتَقُولُهَا عَشْرًا فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ تَفْعَلُ ذَلِكَ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ إِنِ اسْتَطَعْت أَن تصليها فِي كل يَوْم فَافْعَلْ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةً فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ شَهْرٍ مَرَّةً فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي عُمْرِكَ مَرَّةً . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّعْوَات الْكَبِير

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے عباس بن عبدالمطلب ؓ سے فرمایا :’’ اے چچا جان عباس ! کیا میں آپ کو کچھ عطا نہ کروں ؟ کیا میں آپ کو کچھ عنایت نہ کروں ؟ کیا میں آپ کو کوئی خبر نہ دوں ؟ کیا میں آپ کو دس خصلتیں عطا نہ کروں کہ جب آپ ان پر عمل کریں تو اللہ آپ کے اگلے پچھلے ، قدیم و جدید ، سہواً کیے گئے یا عمداً ، چھوٹے بڑے ، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہ معاف فرما دے ، وہ یہ کہ آپ چار رکعت نماز پڑھیں ، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھیں ، جب آپ پہلی رکعت میں قراءت سے فارغ ہو جائیں اور ابھی قیام میں ہوں تو آپ پندرہ مرتبہ ’’ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ‘‘ پڑھیں ، پھر آپ رکوع کریں اور رکوع میں یہی تسبیح دس مرتبہ پڑھیں ، پھر رکوع سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ یہی کلمات پڑھیں ، پھر سجدہ کریں اور سجدہ میں دس مرتبہ یہی کلمات پڑھیں ، پھر سجدہ سے سر اٹھائیں اور دس مرتبہ یہی کلمات پڑھیں ، پھر سجدہ ….ألخ

جواب

یہ صلاۃ التسبیح والی مشہور حدیث ہے۔ صلاۃ التسبیح سے متعلق جتنی احادیث وارد ہیں، ان میں قدرے بہتر یہی روایت ہے، لیکن اس کے باوجود اس کو بھی کئی ایک اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے۔
شروع سے لیکر اب تک اہل علم میں صلاۃ التسبیح کی احادیث سے متعلق کافی اختلاف ہے، کچھ انہیں صحیح یا حسن قرار دیتے ہیں، جبکہ بعض اہل علم انہیں ضعیف اور کچھ تو انہیں موضوع تک قرار دیتے ہیں۔
عصر حاضر میں جن علمائے کرام نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے، ان میں شیخ البانی اور شیخ زبیر علی زئی رحمہما اللہ ہیں جبکہ ضعیف قرار دینے والوں میں شیخ ابن باز، اور شیخ ابن العثیمین وغیرہ ہیں۔
الجامع الکامل کے مصنف اس حدیث کو ذکر کر کے فرماتے ہیں:

«وقد كثر الكلام في صلاة التسبيح فذهب أكثر المحققين إلى أنها بدعة، لم يثبت قولًا ولا فعلًا عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عنِ الخلفاء الراشدين، ولا عن أحدٍ من الصحابة والتابعين، وإنما صلى بها بعض أتابع التابعين كما ذكره الحاكم (1/ 329) منهم عبد الله بن المبارك كما ذكره البيهقي في “شعب الإيمان” وقال: “وتداولها الصالحون بعضهم عن بعض، وفيه تقوية للحديث المرفوع”.
قلت: كذا قال رحمه الله تعالى. وفيه نظر، فإن عمل الصالحين لا يُقَوِّي الحديثَ الضعيفَ ولا يَشْرَعُ شيئًا جديدًا في الدين، والله المستعان، انظر للمزيد: “المنة الكبرى” (2/ 421).
وقد سئل الشيخ ابن باز رحمه الله تعالي عن حديث صلاة التسبيح، فقال: “والصواب أنه ليس بصحيح؛ لأنه شاذ، ومنكر المتن، ومخالف للأحاديث الصحيحة المعروفة عن النبي صلى الله عليه وسلم في صلاة النافلة، الصلاة التي شرعها الله لعباده في ركوعها وسجودها وغير ذلك؛ ولهذا الصواب: قول من قال بعدم صحته لما ذكرنا؛ ولأنّ أسانيدها كلها ضعيفة” “مجموع فتاويه” (11/ 426)». [الجامع الكامل 3/ 452]

اس پر عصر حاضر میں مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں، جن میں ایک مشہور کتاب التنقيح لما جاء في صلاة التسبيح ہے۔ اس سے پہلے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا اس پر مستقل رسالہ ہے، اور ان سے بھی پہلے خطیب بغدادی نے اس پر مستقل جزء تصنیف فرمایا ہے۔
مجھے جس بات پر ابھی تک شرح صدر ہے، وہ اس کا ضعیف اور غیر ثابت ہونا ہی ہے، لیکن بہرصورت چونکہ سلف و خلف میں کئی ایک اہل علم نے اس کی تصحیح و تحسین بھی کی ہے، لہذا اگر کوئی یہ نماز پڑھنا چاہے تو اس کی گنجائش موجود ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ