وطن عزیز میں خطبا حضرات کو حکومتی تقریر کا پابند کرنے کا موضوع گرم ہے۔ اس کے حق میں تحریک چلانے والے عام طور پر وہ لوگ ہیں جنہیں میں ’انصافی شاہین‘ کہتا ہوں، جن کے بارےمیں اقبال اگر موجود ہوتا تو ضرور کہتا کہ
سبق پھر پڑھ ضلالت کا رذالت کا شقاوت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام کافر کی وکالت کا
ان لوگوں کو سعودیہ اور اس کے نظام سے کتنی دلچسپی ہے، یہ تو سب دنیا جانتی ہے۔ لیکن بہرصورت اب انہیں سعودیہ کا خطبہ جمعہ کا نظام یاد آرہا ہے، کہہ رہے ہیں کہ وہاں خطیب حکومت کی طرف سے لکھی لکھائی تقریر کرتے ہیں۔
سعودیہ میں خطبہ جمعہ کا جو نظام ہے، وہ پاکستان سے مختلف ہے، لیکن بہرصورت وہاں حکومتی تقریر کی پابندی کا کوئی تصور نہیں ہے۔
کچھ اہل علم اور خطبا کے تجربات و مشاہدات:
پاکستان سے کئی ایک اہل علم، علماء و خطباء سعودیہ میں دعوتی میدان میں مصروف عمل ہیں، آپ ان سے معلومات لیں تو حقیقت حال بالکل واضح ہوجائے گی، ایک جگہ پر کسی صاحب نے اس حوالے سوال کیا کہ کیا واقعتا سعودی عرب میں حکومت کی طرف سے تقریر لکھ کر دی جاتی ہے؟
اس سوال کے جواب میں کئی ایک لوگوں نے اپنے تجربات و مشاہدات بیان کیے، جنہیں یہاں نقل کرتا ہوں:
’’جى ایسا ہرگز نہیں ہے،میں ذاتی طور پر کئی خطباء کو جانتا ہوں،ہر خطيب اپنے طور پر نیٹ سرچ کرتا ہے جو خطبہ پسند آتا ہے اسے پرنٹ کرکے پیش کرتا ہے،کچھ تو اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا خطبہ لے کر منبر پر تشریف لاتے ہیں،ہاں اگر کوئی خاص مہم ہو جیسے کوئی تكفيري منهج پر دہشت گردی کی کوئی واردات ہو یا اور اس جیسا كوئى اورواقعہ ہو توحكومت كى طرف سے اس کی مذمت پر خطبہ دینے کا حکم آئے تو پھر اسى موضوع پر خطبہ ہوتا ہے۔‘‘
ایک اور صاحب کہتے ہیں:
’’یہ بات بالکل بےبنیاد ہے۔ گزشتہ رمضان کے 4 جمعے اور محرم کا ایک جمعہ اپنے ایک استاد کی جگہ ان کی مصروفیت کی وجہ سے پڑھانے کا اتفاق ہوا تھا اور مسجد بھی وزارہ کے تحت اور اکثر سعودی تھے
لیکن موضوع اپنی مرضی کا تھا۔‘‘
عرصہ دراز سے جدہ میں مقیم ایک عالم دین لکھتے ہیں:
’’الحمد للہ جدہ میں تقریبا 28 مساجد میں جمعیة اہل الحدیث مرکزیہ کے زیر اہتمام اردو زبان میں خطبات جمعہ ھو رہے ہیں۔ میں خود بھی ربع صدی سے جدہ میں معروف خطیبوں کا بااجازت وزارۃ داخلیہ بموافقة وزاۃ شئون اسلامیة خطبات کا ترجمة کر رھا ہوں۔ بلکہ بہت سے خطیبوں کو موضوع اور مواد بھی فراہم کیا ھے، حکومت کی طرف تقریر آنے کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ ہاں اہم مواقع پر بعض دفعہ کسی خاص موضوع پر تقریر کرنے کا کہا جاتا ہے۔‘‘
مدینہ منورہ مین عرصہ دراز سے مقیم رہنے والے ایک عالم دین لکھتے ہیں:
’’یہ بات غلط ہے کہ سعودیہ میں حکومت کی طرف سے خطبہ ملتا ہے۔ میں نے خود کئی مرتبہ مدینہ میں ائرپورٹ روڈ پر خطبہ دیا ہے اور خود لکھ کر لے جاتا تھا کبھی کہیں سے کوئی ایسی پابندی نہیں تھی۔‘‘
ایک اور خطیب لکھتے ہیں:
’’یہ خبر بلکل بے بنیاد هے، خطبہ جمعہ هو یا دوسرے پروگرام اکثر مشایخ عنوان کے متعلق نوٹس تیار کرکے سامنے رکھتے هیں، بعض مشایخ موبائل سے پڑھ کر خطبہ دیتے۔
الحمدللہ میں کئی سالوں سے جمعہ کاخطبہ دیتا هوں نہ کوئی سرکاری ورقہ هوتاهے نہ اپنی طرف سے کوئی ورقہ۔
حکومت کو جب ضرورت هوتو وہ صرف ایک میسج چھوڑ دیتے هیں کہ اس عنوان پر بولا جائے جیسے گذشتہ 15ستمبر کاجمعہ تقریبا پوری مملکت میں ایک هی عنوان پر دیا گیا۔‘‘
ایک اور عالم دین اپنا مشاہدہ یوں بیان کرتے ہیں:
حرمین شریفین، مسجد قبلتین، مسجد وطنیہ بریدہ، ان سب کے بارے میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ سب خود لکھ کر لاتے ہیں، حکومت کی جانب سے لکھا ہوا نہیں ملتا۔ بلکہ لکھا ہوا ہونا بھی ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ مسجد قبلتین کے ایک خطیب عبد الرزاق البدر لکھ کر لاتے ہی نہیں زبانی خطبہ دیتے ہیں۔ ایسے مسجد عائشہ الراجحی مکہ میں ایک بار جمعہ ادا کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے بھی زبانی خطبہ دیا تھا لکھا ہوا تھا ہی نہیں۔‘‘
یہ سب ان لوگوں کے تجربات و مشاہدات ہیں، جو عرصہ دراز سے سعودی عرب میں دعوتی میدان میں مصروف عمل ہیں، اسی طرح وقتا فوقتا سعودی عرب آنے والے پاکستانی اہل علم اور مشایخ کا بھی یہی تجربہ تھا کہ ہم اردو کمیونٹی میں تقاریر اور خطبات جمعہ میں اپنے مرضی کے موضوعات اور مسائل بیان کرتے ہیں، حکومتی تقریر والی بات کا کوئی وجود نہیں ہے۔
اس مسئلےکو دیکھنے کا ایک اور انداز:
سعودی عرب میں سوشل میڈیا وغیرہ کا استعمال پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے، یہاں تقریر و تحریر کی ترویج و تشہیر کا نظام ہم سے کافی بہتر ہے، سعودیہ میں درجنوں علماء ہیں، جن کے خطبات لائیو نشر ہوتے ہیں، ان کو سن لیں، ہر ایک کا اپنا مضمون اور بیان کرنے کا اپنا انداز ہوگا، اگر تقریر حکومت کی طرف سے ہو، تو الگ الگ خطبے ہونے کا کیا مطلب؟
اور تو اور آپ حرمین شریفین یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی میں ہونے والے ایک ہی جمعے کے دو خطبات کو آپس میں ملا کر دیکھ لیں، ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔ ہر خطیب کی صلاحیت، انداز ، اتار چڑھاؤ، فصاحت و بلاغت اور دلچسپیاں ان کے خطبات سے واضح ہوں گی، اگر حکومت کی طرف سے لکھی لکھائی تقاریر ہوتی ہوں تو یہ اختلاف کیوں؟
ایک صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ جو سعودی عرب کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں خطبہ گورنمنٹ کی طرف سے لکھا ہوا ملتا ہے یہ بالکل غلط ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ مختلف مساجد میں مختلف موضوعات بیان کیے جاتے ہیں حتیٰ کہ حرمین شریفین کے اندر مکہ اور مدینہ میں ایک موضوع نہیں ہوتا مسجد قباء اور دیگر مساجد میں خطبہ جمعہ کے عناوین مختلف ہوتے ہیں اور خطیب خود لکھ کے لاتا ہے دراصل یہاں خطیب حضرات لکھ کر خطبہ دیتے ہیں چند خطیب ایسے ہیں جو لکھے بغیر خطبہ دیتے میں نے کئی مساجد میں خطبہ جمعہ کا ترجمہ جمعہ کے بعد کیا ہے تو بعض دفع خطیب وہ لکھا ہوا جمعہ پکڑا دیتا ہے تاکہ ترجمہ میں مدد لی جاسکے تو وہ اس کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوتا ہے۔‘‘
بلکہ آپ کو کئی ایسے خطبات اور تقاریر بھي ملیں گی، کہ جن کی وجہ سے خطباء کو پابندی کا سامنا کرنا پڑأ، اگر خطبہ حکومت کی طرف سے ہو تو پھر حکومت اپںا ہی خطبہ پڑھنے والے پر پابندی کیوں لگائے گی؟
حکومت اپنی ہی تیار کردہ تقریر کو بین کس منطق سے کرے گی؟
غلط فہمی کا سبب کیا ہے؟
جب صورت حال یہ ہے تو پھر سعودی عرب کے متعلق یہ غلط فہمی کیوں پھیلی کہ یہاں حکومت کی طرف سے لکھی لکھائی تقریر کی جاتی ہے؟
میں جب سعودیہ میں آیا تو ایک حد تک میرے ذہن میں بھی یہ تاثر موجود تھا، اور اس تاثر کو مزید تقویت ملی، جب مسجد نبوی و مسجد حرام میں خطباء کو ہاتھ میں ورقے تھأم کر تقریریں کرتے دیکھا۔ جامعہ اسلامیہ اور ارد گرد کی مساجد میں بھی یہی رواج نظر آیا، عموما خطبا ہاتھ میں ورقہ تھأم کر تقریر کیا کرتے تھے، بلکہ بعض مساجد میں خطباء تو اس قدر ورقے کے عادی تھے، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے سے پہلے ورقہ کھول لیتے، اور وآخر دعوانا… کہنے کے بعد ورقے سے نظر ہٹاتے۔ بڑی حیرانی ہوتی کہ انہیں السلام علیکم بھی ورقے کے بغیر کہنا نہیں آتا۔
بلکہ ہمیں ایک دفعہ ایک استاد محترم نے لطیفہ بھی سنایا کہ ایک خطیب جمعے کی تیاری کرکے ورقہ جیکٹ میں ڈال کر لے گیا، مسجد میں جاکر وضو کرنے کےلیے جب جیکٹ اتاری تو ایک شرارتی نے چپکے سے ورقہ نکال لیا، خطیب صاحب ورقہ پر اعتماد کرتے ہوئے منبر پڑ چڑھ گئے، خطبہ مسنونہ پڑھتے ہوئے جب ورقہ کے لیے جب میں ہاتھ ڈالا تو پیشانی سے پسینہ اترنے لگا، جیسے تیسے کرکے خطبہ ختم کیا،، اگلی مرتبہ پھر اسی شرارتی کے ہتھے چڑھ گئے، تیسری مرتبہ انہوں ںے خطبہ کی دو کاپیاں کروالیں، شرارتی شرارت کرکے خطیب صاحب کی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ سے محظوظ ہونے کے لیے منتظر بیٹھا تھا، کہ خطیب صاحب نے فاتحانہ انداز میں دوسری جیب سے ورقہ نکالا، اور دھواں دھار خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں خطبہ لکھ کر لانے کا رواج ہے، گو فی البدیہہ خطبہ یا تقریر کرنے والے اہل علم اور خطبا بھي موجود ہیں۔
اور یہ صرف خطبہ ہی نہیں، یہاں بہت ساری تقاریب میں شرکت کی، وزیر مشیر، بادشاہ، مدیر الجامعہ وغیرہ سب لوگ جو بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں، عموما ایک ورقے پر لکھ کر( یا اپنے سیکرٹری سے لکھوا کر) ساتھ لائے ہوتے ہیں۔ اور یہ رواج صرف سعودیہ میں ہی نہیں، بلکہ اور کئی جگہ پر اس کی مثالیں موجود ہیں۔ عمران خان صاحب بلا ورقہ تقریر کرتے ہیں، ورنہ اکثریت پہلے سے تیار شدہ بیان پڑھتےہیں۔
البتہ ہمارے ہاں عام طور پر خطبا کا انداز ورقہ دیکھ کر تقریر پڑھنے کا نہیں ہوتا، تو سعودیہ کے ورقے والے خطبا دیکھ کر ہماری نظر میں پہلا تصور یہی آتا ہے کہ شاید یہ حکومت کی بھیجی ہوئی تقریر سنائی جارہی ہے۔
حرمین میں ورقے والی تقریر پڑھنے کی ایک مجبوری یہ بھي ہے کہ یہاں کا خطبہ جمعہ ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوتا ہے، جن لوگوں نے ترجمہ کرنا ہوتا ہے، خطیب صاحب پہلے سے خطبہ لکھ کر مترجمین تک پہنچادیتے ہیں، تاکہ ساتھ ساتھ ترجمہ کرنے میں زیادہ مشکل اور پریشانی نہ ہو۔
سعودی عرب میں لکھی ہوئی تقریر نہیں ہوتی لیکن:
چونکہ سعودیہ عرب ایک اسلام پسند ملک ہے، اور اس میں کتاب وسنت اور اس کے احکامات کو باقاعدہ طور پر حکومتی سطح پر پروموٹ کیا جاتا تھا، جس طرح ہمارے ہاں داخلہ خارجہ، مالی وزارتیں ہیں، یہاں اوقاف اور اسلامی امور باقاعدہ ایک باصلاحیت وزیر کے تحت ہوتے ہیں، اس لیے انہوں نے لوگوں کو اپںا دیندار ہونا ثابت کیا ہے، اور لوگوں کے دینی جذبات کی تسکین کا بھرپور انتظام بھی کیے رکھا ہے، اس لیے لوگ دینی معاملات میں بھی ان پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں، تمام مساجد، دینی جامعات، مدارس وغیرہ براہ راست حکومت کی کفالت میں ہیں، اور حکومت اس پر ٹھیک ٹھاک خرچہ کرتی ہے، یہاں خطیب یا امام مسجد ہونا تو بڑی بات، خالی مؤذن کے لیے بھی مناسب سہولیات ہیں۔
دینی معاملات میں پابندیاں لگانے یا اٹھانے والے وقت کے بڑے بڑے علماء ہوا کرتے تھے، کافرانہ نظام کے دلدادہ لوگ نہیں تھے، یوں آج تک یہاں مساجد و مدارس کو جن باتوں کا پابند کیا جاتا ہے، عموما لوگ اس پابندی کا احترام کرتے ہیں۔ اوراب نظام میں کچھ تبدیلی کی وجہ سے مخالفتیں ہونا شروع ہوئی بھی ہیں، تو بھي اب تک اکثریت ایسے لوگوں کی ہے، جو حکومتی پالیسیوں پر آنکھ بند کرکے اعتماد کرنے والے ہیں۔
اور یہاں خطبا و واعظمین کو گو لکھی لکھائی تقریریریں نہیں ملتیں، لیکن پھر بھی حکومت وقت کی مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اسے فتنہ پروری اور ناسمجھی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کئی لوگ جنہوں نے منبر و محراب اور قلم و لسان کو بے دریغ استعمال کیا، آج پابندیوں کا شکار ہیں۔
رياست مدینہ منورہ درست سمت گامزن ہے؟
پاکستان اگر ریاست مدینہ منورہ کی طرز پر بننے جارہی ہے تو سعودیہ کی نگرانی اور سختی کی بجائے اس کی طرف سے دینی طبقے کو دی جانے والی سہولیات پر بھی غور کرے، مدارس و مساجد کا خرچ اٹھائے، خطیب، امام، مؤذن، شیخ الحدیث وغیرہ کو باقاعدہ گریڈ سسٹم کے تحت تنخواہ دی جائے، تو شاید پابندی لگاتے وقت آپ کے حمایتی بھی ہوں گے، ورنہ اس کا کوئی بھی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔
یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، آپ کا دعوی اسے ریاست مدینہ بنانے کا ہے، لیکن ہر آنے والے دن میں یہاں اسلام پسندوں پر ہی سختیاں ہورہی ہیں۔ جبکہ پارلیمنٹ جیسا حکومتی منبر ہو یا پھر میڈیا جیسا ایک عام فورم ہر جگہ پر پابندی اور قواعد و ضوابط نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
کون سی اسلام مخالف سرگرمی ہے جو اس ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ میں نہیں ہوتی؟ اس پر پابندی کس نے لگانی ہے؟
جو حکومت اپنے حکومتی سیٹ اپ میں موجود چند سو افراد کے لیے دینی رہنمائی کا خاطر خواہ بندوبست نہیں کرسکتی، وہ سارے پاکستان کو اپنی تقریر کا پابند کیسے بنائے گی؟
تختہ حکومت پر براجمان یا اس کے امیدواران کی آئے دن کی تقریریں ان کے دینی مزاج کا مذاق اڑاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
تھوک کے حساب سے آنے والی تقریروں اور بیانات میں قرآن اور سنت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اگر ہمت کرلیں، توکوئی سورہ اخلاص میں الجھ جاتا ہے، کسی کو خاتم النبیین کے ہجے پھنس جاتے ہیں، یہ بسم اللہ، کلمہ شہادت اور سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں، تو یوں محسوس ہوتاہے، جیسے خلیجی ممالک میں کوئی اجنبی عربی بولنے پر مجبور کردیا گیاہے۔
جس ملک کی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے حق میں تقریریں ہوں، اُس ملک کی مساجد و مدارس میں پابندی کی بات کرنے والوں کونئے پرانے پاکستان کے چکر میں الجھنے کی بجائے اپنے لیے ایک عدد نیا ضمیر اوردماغ تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان اور ریاست مدینہ منورہ کے لیے سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔