سوال (2993)
زینب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو نیزا یا خنجر لگا تھا، وہ مکمل حدیث چاہیے۔
جواب
ہجرتِ زینب بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو العاص سے یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ زینب رضی اللہ عنہما کو مدینہ ہجرت کرکے آنے کی اجازت دے دیں گے، اس لیے وہ مکہ آئے تو زینب رضی اللہ عنہما کو اپنے باپ کے پاس چلے جانے کی اجازت دے دی، چنانچہ انہوں نے سفر کی تیاری کرلی، اور ان کے شوہر کے بھائی کنانہ بن ربیع نے انہیں ایک اونٹ دیا، جس پر وہ سوار ہوگئیں، اور کنانہ نے اپنا تیر، کمان اور تیروں کا تھیلا لیا اور زینب رضی اللہ عنہما کو لے کر دن دہاڑے اونٹنی کو ہانکتے ہوئے نکلے، زینب رضی اللہ عنہ ہودج میں بیٹھی ہوئی تھیں، جب یہ بات قریشیوں کو معلوم ہوئی تو ان کے چند آدمی ان کی تلاش میں نکلے اور مقامِ ذی طویٰ پر انہیں جالیا، اور سب سے پہلے جو ان کے پاس پہنچا، وہ ہبار بن اسود تھاجو اپنے نیزے کے ذریعہ اُن کے اونٹ کو بدکانے لگا، یہاں تک کہ زینب رضی اللہ عنہ نیچے گرگئیں، اور ان کا حمل ساقط ہوگیا، اور بہت زیادہ خون بہا، جس کی وجہ سے وہ بیمار ہوگئیں اور مدینہ آنے کے بعد وفات پاگئیں۔
ان کا یہ حال دیکھ کر کنانہ بن ربیع اپنے اونٹ سے نیچے اُترے اور تیرکمان درست کرکے کہنے لگے: اللہ کی قسم! اگر کوئی آدمی مجھ سے قریب ہوگا تو میں اس پر تیر چلادوں گا، یہ سن کر سب لوگ الگ ہوگئے، اس وقت ابوسفیان آیا اور کہنے لگا، تمہارا بُرا ہو، تم ہماری مصیبت جانتے ہو، اور پھر ایک عورت کو لے کر علانیہ نکلے ہو، اس لیے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایسا ہماری ذلت وکمزوری کے سبب ہورہا ہے، اللہ کی قسم! ہمیں اسے (زینب رضی اللہ عنہما) اس کے باپ کے پاس جانے سے روکنے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن ابھی تم اسے واپس لے جاؤ، اور جب لوگوں کی آواز دھیمی پڑجائے اور آپس میں کہنے لگیں کہ ہم نے اسے واپس کردیا اس وقت اسے خفیہ طور پر لے کر نکلو، اور اسے اس کے باپ کے پاس پہنچادو، کنانہ نے پھر ایسا ہی کیا۔ [السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر: 2/ 483، 484، اتحاف الوریٰ: 1/ 423، 424۔]
ابن اسحاق نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوجی دستہ بھیجا جس میں میں بھی تھا، اور فرمایا کہ اگر ہبار بن اسود تمہارے ہاتھ آجائے اور وہ آدمی جو اس کے ساتھ زینب کی طرف بڑھا تھا، تو ان دونوں کو آگ میں جلادو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے بدل دی اور ان کو دوبارہ خبر بھیجی کہ اگر وہ دونوں تمہارے ہاتھ آجائیں تو انہیں قتل کردو۔ ابوالعاص رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے کچھ دنوں پہلے اسلام لے آئے جیساکہ آگے آئے گا، اور مدینہ آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہما کو ان کے پاس بھیج دیا۔ [السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر: 2/519]
سیرتِ نبوی سے متعلق تمام کتابوں میں ہے کہ مسلمانوں نے اپنے قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا، ان میں سے نہ کسی کو کوئی تکلیف پہنچی اور نہ کسی نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی، بلکہ بعض صحابہ تو اپنے قیدیوں کو روٹی کھلاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے خود کھجور کھاتے تھے۔ [صحیح السیرۃ النبویۃ: ص/ 254، 255، السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر: 2/ 457- 463]
(یہ کتاب الصادق الامین سے لیا گیا ہے، واقعہ کی استنادی حیثیت محققین اھل علم بتائین گے۔ سن دو ہجری میں وہ مدینہ آئیں اور آٹھ ہجری میں انتقال ہوا۔ ممکن ہے کہ یہ نیزہ کا زخم مرض کا سبب بنا اور چند سال وہ بیمار رہنے کے بعد اسی سبب فوت ہوئی ہوں۔ واللہ اعلم!)
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ